بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

اسکول کے بچوں کو زکاۃ دینا


سوال

میرا اپنا اسکول ہے،کچھ غریب طلبہ ہیں،اگر میں اپنی زکاۃ ان کو دوں یا ان کی فیس یا کتابیں دلاؤں، دل میں نیت کروں، لیکن ان کو نہ بتاؤں تو کیا حکم ہے؟

جواب

اگر وہ بچے بالغ ہوں تو  انہیں زکاۃ دینا جائز ہے، اسی طرح اگر وہ بچے نابالغ ہوں لیکن اتنے سمجھ دار ہوں کہ مال کا لین دین سمجھتے ہوں اور ان کے والد بھی غریب ہوں، یا والد تو مال دار ہوں لیکن ان بچوں کا خرچہ نہ اٹھاتے ہوں تو آپ ان غریب بچوں کو زکاۃ  دے سکتے ہیں۔

لیکن زکاۃ کی ادائیگی کے لیے ضروری ہے کہ رقم یا جو چیز دی جائے وہ ان کو مالک بناکر دی جائے، لہٰذا یا تو ان کو کتابیں دےدیں، یا ان کے ہاتھ میں رقم دےدیں۔  لیکن ان کی طرف سے خود ان کی فیس جمع کرادینے سے زکاۃ ادا نہ ہوگی جب تک کہ ان یا ان کے غریب والدین کے ہاتھ میں رقم نہ دی جائے۔

"(و) لا إلی (طفله) بخلاف ولده الکبیر وأبیه وامرأته الفقراء وطفل الغنیة فیجوز؛ لانتفاء المانع. (قوله: ولا إلی طفله) أی الغني فیصرف إلی البالغ ولو ذکراً صحیحاً قهستاني، فأفاد أن المراد بالطفل غیر البالغ ذکراً کان أو أنثی في عیال أبیه أولا، علی الأصح لما عنده أنه یعد غنیاً بغناه، نهر". ( الدر المختار مع رد المحتار : ۳۵۰/۲، ط: دار الفکر، بیروت )

بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع (2/ 47):
"وأما ولد الغني فإن كان صغيراً لم يجز الدفع إليه وإن كان فقيراً لا مال له؛ لأن الولد الصغير يعد غنياً بغنى أبيه وإن كان كبيراً فقيراً يجوز؛ لأنه لايعد غنياً بمال أبيه فكان كالأجنبي".
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010200273

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں