بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اسلامی بینکوں کا کار اجارہ


سوال

آج کل  کار اجارہ (اسلامی بینکاری) میں جو طریقہ کار وضع کیا گیا ہے:

 1) اس کی بنیاد کیا ہے؟

2) کیا اس کی مثال ، حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین کے ادوار میں ملتی ہے؟ 

جواب

ملک کے اکثر جید اور مقتدر مفتیانِ کرام  کی تحقیق کے مطابق مروجہ غیر سودی بینکوں کا طریقہ کار شرعی اصولوں کے مطابق نہیں ہے۔ مروجہ غیر سودی بینک اور  روایتی بینک کےبہت سے  معاملات درحقیقت ایک جیسے ہیں، لہذا روایتی بینکوں کی طرح کسی بھی مروجہ غیر سودی بینکوں سے( کار اجارہ سمیت کوئی بھی) تمویلی معاملات کرنا، سیونگ اکاؤنٹ  وغیرہ کھلوانا جائز نہیں ہے۔  ضرورت پڑنے پر صرف ایسا اکاؤنٹ کھلوایا جاسکتا ہے جس میں منافع نہ ملتا ہو، مثلاً: کرنٹ اکاؤنٹ یا لاکرز وغیرہ۔

ظاہر ہے جس معاملے کو اہلِ علم کی اکثریت ناجائز کہہ رہی ہو، اس کی جائز نظیر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور میں نہیں ہوگی۔  نہ ہی موجودہ نظام نے ایسی کوئی ٹھوس بنیاد وضع کی ہے جو اس عقد کو جواز فراہم کرسکے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144104200452

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں