بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اسقاطِ حمل کا حکم


سوال

میری شادی کو 5 سال ہوگئے ، 2 جڑواں بچے ہیں،  بیوی کی دماغی حالت اچھی نہیں، پہلی ڈیلوری میں بھی اس کی جان خطرے میں تھی،  بڑٰ ی مشکل سے بچایا اس کو،میری جاب ختم ہونے والی ہے،  مالی حالت اچھی نہیں ، بیوی، ماں وغیرہ کے اخراجات ہیں۔اب ایک ماہ سے اس کو ایام نہیں آئے، بہت پریشان ہے،اور بچہ ہو تو ضائع کروانے کے لیے کہہ رہی ہے، جسمانی اور دماغی حالت کی وجہ سے۔میں کیا کروں؟

جواب

اگر حمل سے عورت کی جان کو خطرہ  ہو یا کسی شدید مضرت کا اندیشہ ہو ، یا  حمل سے عورت کا دودھ بند ہوجائے جس  سے پہلے بچہ کو نقصان ہو   اور کوئی  تجربہ کار مستند مسلمان ڈاکٹر اس کی تصدیق کرتا ہے  تو اس جیسے اعذار کی بنا پر  حمل میں روح پڑجانے سے پہلے   پہلے (جس کی مدت تقریباً چار ماہ ہے)    اسے ساقط کرنے کی گنجائش ہوگی۔ اور چار ماہ پورے ہونے پر  کسی صورت میں اسقاطِ حمل جائزنہیں ہے، اور  شدید عذر نہ ہو تو پھر  حمل کو ساقط کرنا   کسی بھی وقت جائز نہیں، بلکہ بڑا گناہ ہے۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144104201024

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں