’’استنشاق‘‘ کی حد کیا ہے؟ اکثر مفتیانِ کرام ناک کی نرم ہڈی تک دھونا ضروری قرار دیتے ہیں، جب کہ دار العلوم دیوبند آن لائن ویب سائٹ پر ایک جواب (Published on: Jul 5, 2018 # 162462 ) میں اس بارے میں راجح قول سنت ہونے کا لکھا گیا ہے، اسی طرح آپ کے جامعہ بنوری ٹاون کے فتوی( نمبر : 144007200311 ) بھی غیر روزہ دار کے لیے مستحب لکھا ہے، اور ناک کے نرم حصہ تک دھونا کافی قرار دیا گیا ہے، اس لیے ہمارے چند ساتھیوں میں تشویش ہے ، لہذا باحوالہ اشکال رفع فرمائیے۔
’’استنشاق‘‘ کی حد ناک کی نرم ہڈی تک پانی پہنچانا ہی ہے، اور یہ سنت ہے، دارالعلوم دیوبند کا فتوی درست ہے، جب کہ ہمارے سابقہ فتوی میں تسامح ہوگیا تھا، ترمیم کی جارہی ہے، نشان دہی کا شکریہ! نیز بعض مفتیانِ کرام کا اس کو ضروری (بمعنی واجب) قرار دینا بھی درست نہیں۔
قال في الدر:
"(وَغَسْلُ الْفَمِ) أَيْ اسْتِيعَابُهُ، وَلِذَا عَبَّرَ بِالْغَسْلِ -أَوْ لِلِاخْتِصَارِ (بِمِيَاهٍ) ثَلَاثَةٌ (وَالْأَنْفِ) بِبُلُوغِ الْمَاءِ الْمَارِنِ (بِمِيَاهٍ) وَهُمَا سُنَّتَانِ مُؤَكَّدَتَانِ مُشْتَمِلَتَانِ عَلَى سُنَنٍ خَمْسٍ: التَّرْتِيبُ، وَالتَّثْلِيثُ، وَتَجْدِيدُ الْمَاءِ، وَفِعْلُهُمَا بِالْيُمْنَى (وَالْمُبَالَغَةُ فِيهِمَا) بِالْغَرْغَرَةِ، وَمُجَاوَزَةِ الْمَارِنِ (لِغَيْرِ الصَّائِمِ) لِاحْتِمَالِ الْفَسَادِ؛ وَسِرُّ تَقْدِيمِهِمَا اعْتِبَارُ أَوْصَافِ الْمَاءِ؛. لِأَنَّ لَوْنَهُ يُدْرَكُ بِالْبَصَرِ، وَطَعْمَهُ بِالْفَمِ، وَرِيحَهُ بِالْأَنْفِ. وفي الرد : (قَوْلُهُ: الْمَارِنَ) هُوَ مَا لَانَ مِنْ الْأَنْفِ قَامُوسُ (قَوْلُهُ: وَهُمَا سُنَّتَانِ مُؤَكَّدَتَانِ) فَلَوْ تَرَكَهُمَا أَثِمَ عَلَى الصَّحِيحِ سِرَاجٌ. قَالَ فِي الْحِلْيَةِ: لَعَلَّهُ مَحْمُولٌ عَلَى مَا إذَا جَعَلَ التَّرْكَ عَادَةً لَهُ مِنْ غَيْرِ عُذْرٍ، كَمَا قَالُوا مِثْلَهُ فِي تَرْكِ التَّثْلِيثِ كَمَا يَأْتِي". [الدر مع الرد : ١/ ١١٥-١١٦]فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144102200323
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن