بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

استاذ کا بچے کو دوسرے بچے سے سزا دلوانے کا حکم


سوال

کیا استاد بچے کو دوسرے بچے کے ذریعے مار سکتا ہے ؟ اس کے متعلق کیا ہے؟ 

جواب

تنبیہ کے لیے استاذ کا شاگرد کو حدودِ شریعت میں  رہتے ہوئے مارنا جائز ہے، لیکن دوسرے بچےسے مروانے میں مختلف مفاسد ہیں، اس بنا پر اس سے اجتناب لازم ہے۔ 

"لايجوز ضرب ولد الحر بأمر أبيه، أما المعلم فله ضربه؛ لأن المأمور يضربه نيابةً عن الأب لمصلحته، والمعلم يضربه بحكم الملك بتمليك أبيه لمصلحة التعليم، وقيده الطرسوسي بأن يكون بغير آلة جارحة، وبأن لايزيد على ثلاث ضربات، ورده الناظم بأنه لا وجه له، ويحتاج إلى نقل، وأقره الشارح، قال الشرنبلالي: والنقل في كتاب الصلاة يضرب الصغير باليد لا بالخشبة، ولايزيد على ثلاث ضربات". [رد المحتار: ٦/ ٤٣٠، کتاب الحظر والإباحة، فصل فی البیع، فروع، ط: سعید)

مزید تفصیل کے لیے درج ذیل لنک پر جامعہ کا تفصیلی فتویٰ ملاحظہ کیجیے:

تعلیمی اداروں میں تادیب کی غرض سے بچوں کو سزا دینا اور اس کی شرائط

استاد بچوں کو بطور سزا کتنا مار سکتا ہے؟

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144104200692

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں