بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

استاذ کا طلبہ سے نذر منوانا


سوال

ہمارے استاذ  نے ایک مرتبہ ہماری درس گاہ میں ہم طلبہ سے یہ نذر منوائی تھی کہ اگر میں نے جس دن ایک پارہ نہیں پڑھا تو اس دن 100 روپے صدقہ کروں گا، ہم طلبہ کی تعداد تقریباً 100 تھی،  کیا ہم پر نذر لازم ہوگئی تھی یا نہیں؟ بعض طلبہ کا کہنا ہے کہ ہم نے دل سے نہیں کہا تھا ،بلکہ صرف استاد کے ڈر سے کہا تھا ،آیا سب پر نذر لازم ہوئی یا نہیں؟ اور اگر کسی دن رات کو 12 بجے کے بعد پارہ پڑھا سونے سے پہلے تو کیا اس دن کی نذر پوری ہوئی یا نہیں؟ اور ہم سب طلبہ نے الگ الگ نذر مانی تھی؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں جس بالغ طالب علم نے زبان سے یہ کہا تھا کہ :"جس دن میں نے ایک پارہ نہیں پڑھا تو اس دن 100 روپے صدقہ کروں گا" اس کے ذمے دن میں ایک پارہ تلاوت کرنے کی یہ نذر لازم ہوگئی تھی، اگر طلبہ نے دل سے نہیں کہا تھا  تب بھی یہ نذر منعقد ہوگئی تھی، لہذا طلبہ پر لازم تھا کہ وہ ایک مغرب سے لے کر اگلے دن کی مغرب تک ایک پارہ پڑھیں، لہذا جس دن  انہوں نے اس دورانیہ میں ایک پارہ نہیں پڑھا تو ان پر سو روپے صدقہ کرنا لازم ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) - (3 / 735):

"(قوله: ومن نذر نذراً مطلقاً) أي غير معلق بشرط مثل: لله علي صوم سنة، فتح، وأفاد أنه يلزمه ولو لم يقصده، كما لو أراد أن يقول كلاماً فجرى على لسانه النذر؛ لأن هزل النذر كالجد كالطلاق، كما في صيام الفتح، وكما لو أراد أن يقول: لله علي صوم يوم، فجرى على لسانه: صوم شهر، كما في صيام البحر عن الولوالجية".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) - (3 / 794):

"(حلف لايكلم فلاناً اليوم فعلى الجديدين)؛ لقرانه اليوم بفعل لايمتد فعم، (فإن نوى النهار صدق)؛ لأنه الحقيقة (ولو قال: ليلةً) أكلم فلاناً فكذا (فهو على الليل خاصةً)؛ لعدم استعماله مفرداً في مطلق الوقت". فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010200837

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں