بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

استاد بچوں کو بطور سزا کتنا مار سکتا ہے؟


سوال

10 سے 12 سال کے بچوں کو اسکول جانے سے منع کرنے، اور شرارتیں کرنے پر کیا اور کتنی سزا دے سکتے ہیں؟

جواب

بچوں کی تعلیم وتربیت میں نرمی اور محبت کا انداز اختیار کرنا چاہیے، بے جا مار پیٹ سے اجتناب کیا جائے۔ اگر ضرورت کے وقت سزا دینے کی بھی ضرورت ہو تو تدریجاً سزا دی جاسکتی ہے، مثلاً: (1) ملامت کرنا (2) ڈانٹنا (3) کان کھینچنا (4) چہرے کے علاوہ ہلکی سی مار مارنا۔

لیکن کبھی ہاتھ سے مارنے کی ضرورت بھی پیش آجائے تو اس کی درج ذیل شرائط ہیں:

  1. بچوں کے والدین سے اس کی اجازت لی ہو۔
  2. سزا سے مقصود تنبیہ وتربیت ہو، غصہ یا انتقام کے جذبہ کی تسکین نہ ہو۔
  3. ایسی سزا شرعاً ممنوع نہ ہو۔
  4. غصہ کی حالت میں نہ مارا جائے، بلکہ جب غصہ اتر جائے تو مصنوعی غصہ کرتے ہوئے سزا دے۔
  5. بچوں کو ان کی برداشت سے زیادہ نہ مارے۔
  6. ہاتھ سے مارے لاٹھی، ڈنڈا، کوڑے وغیرہ سے نہ مارے، اگر بالغ ہو تو بقدرِ ضرورت لکڑی سے بھی مار سکتا ہے، بشرطیکہ برداشت سے زیادہ نہ ہو۔
  7. ایک وقت میں تین سے زیادہ ضربات نہ مارے، اور نہ ہی ایک جگہ پر تینوں ضربات مارے، بلکہ تین ضربات متفرق جگہوں پر مارے۔
  8. سر، چہرے اور شرم گاہ پر نہ مارے۔
  9. ایسی سزا سے جس سے ہڈی ٹوٹ جائے یا جلد پھٹ جائے یا جسم پر نشان پڑ جائے، یا دل پر اس کا اثر ہو، شرعاً جائز نہیں ہے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"لَايَجُوزُ ضَرْبُ وَلَدِ الْحُرِّ بِأَمْرِ أَبِيهِ، أَمَّا الْمُعَلِّمُ فَلَهُ ضَرْبُهُ؛ لِأَنَّ الْمَأْمُورَ يَضْرِبُهُ نِيَابَةً عَنْ الْأَبِ لِمَصْلَحَتِهِ، وَالْمُعَلِّمُ يَضْرِبُهُ بِحُكْمِ الْمِلْكِ بِتَمْلِيكِ أَبِيهِ لِمَصْلَحَةِ التَّعْلِيمِ، وَقَيَّدَهُ الطَّرَسُوسِيُّ بِأَنْ يَكُونَ بِغَيْرِ آلَةٍ جَارِحَةٍ، وَبِأَنْ لَايَزِيدَ عَلَى ثَلَاثِ ضَرَبَاتٍ، وَرَدَّهُ النَّاظِمُ بِأَنَّهُ لَا وَجْهَ لَهُ، وَيَحْتَاجُ إلَى نَقْلٍ وَأَقَرَّهُ الشَّارِحُ، قَالَ الشُّرُنْبُلَالِيُّ: وَالنَّقْلُ فِي كِتَابِ الصَّلَاةِ يَضْرِبُ الصَّغِيرَ بِالْيَدِ لَا بِالْخَشَبَةِ، وَلَايَزِيدُ عَلَى ثَلَاثِ ضَرَبَاتٍ ". (6/430، کتاب الحظر والإباحة، فصل في البیع، فروع، ط: سعید)

الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ میں ہے:

"للمعلم ضرب الصبي الذي يتعلم عنده للتأديب. وبتتبع عبارات الفقهاء يتبين أنهم يقيدون حق المعلم في ضرب الصبي المتعلم بقيود منها:

  • أن يكون الضرب معتادًا للتعليم كمًّا وكيفًا ومحلًا، يعلم المعلم الأمن منه، ويكون ضربه باليد لا بالعصا، وليس له أن يجوز الثلاث روي أن النبي عليه الصلاة والسلام قال لمرداس المعلم رضي الله عنه: إياك أن تضرب فوق الثلاث، فإنك إذا ضربت فوق الثلاث اقتص الله منك.
  • أن يكون الضرب بإذن الولي، لأن الضرب عند التعليم غير متعارف، وإنما الضرب عند سوء الأدب، فلا يكون ذلك من التعليم في شيء، وتسليم الولي صبيه إلى المعلم لتعليمه لايثبت الإذن في الضرب، فلهذا ليس له الضرب، إلا أن يأذن له فيه نصًا. ونقل عن بعض الشافعية قولهم: الإجماع الفعلي مطرد بجواز ذلك بدون إذن الولي.
  • أن يكون الصبي يعقل التأديب، فليس للمعلم ضرب من لا يعقل التأديب من الصبيان، قال الأثرم: سئل أحمد عن ضرب المعلم الصبيان، قال: على قدر ذنوبهم، ويتوقى بجهده الضرب وإذا كان صغيرًا لايعقل فلايضربه". (13/13، تعليم وتعلم، الضرب للتعليم، ط: دارالسلاسل، كويت) فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144103200675

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں