بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ازدواجی تعلق


سوال

مجھے کچھ چیزوں میں بہت پریشانی ہے،  شوہر کے حقوق کی وجہ سے مجھے کافی عرصہ شادی سے انکار رہا؛ کیوں کہ میرے لیے شوہر کے حقوق ادا کرنے انتہائی مشکل ہیں،  لیکن پھر میرے ایک کزن جن کی پہلے سے شادی ہوئی ہوئی تھی اور بچے بھی ہیں اور مجھ سے سات سال بڑے بھی ہیں، انہوں نے امی سے دوسری شادی کے لیے پیغام دیا  کہ جیسے رہنا چاہیں رہ سکتی ہیں،  بس مان جائیں اور یہ کہ انہوں نے گھر والوں سے چھپ کر کرنی ہے کہ کوئی نہیں مانے گا،  کافی عرصہ تک تو انکار کیا، لیکن پھر یہ سوچ کر مان لیا کہ چلیں کون سے مستقل ساتھ رہنا پڑے گا اور یہ کہ بڑے بھی ہیں اور پہلے سے بیوی بھی ہے۔ مہینے میں ایک دن برداشت کرنے کی ہمت کر لوں گی۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش ہی کہنا چاہیے کہ اب ان کا ہر ہفتے چکر ہوتا ہے اور ایک دن رات ادھر ہی گزرتا ہے۔ اور جو میں نے سوچا سب اس کے برعکس ہوا۔

اب ایک بات تو یہ کہ ہر ہفتے چکر کی وجہ سے میں اتنا چڑ چکی ہوں کہ میں نارملی رویہ بھی ٹھیک نہیں رکھ سک رہی۔ ان کو بتایا بھی ہے، لیکن عورت کو تو برداشت کرنا ہوتا ہے۔ اور بے بسی سی محسوس ہوتی ہے،  بالکل میرے سے ان سے بات چیت نہیں ہورہی ہوتی، یہ سوچ کر بھی تکلیف ہوتی ہے کہ ان کی پہلی بیوی ان سے بہت محبت کرتی ہے تو جب ان کو اور باقیوں کو پتا چلے گا تو  اس وقت یہ بات ذہن میں نہیں آئی اور اب ایک غلطی ہو چکی ہے، اس کا کیا کیا جاسکتا ہے؟

دوسرا یہ کہ میں نے اپنے ان سے یہ کہا ہے کہ مجھے گناہ گار نہ کریں۔ میں اللّٰہ کے سامنے جواب نہیں دے سکتی کہ نا تو میں آپ کے حقوق ادا کر سکتی ہوں اور نا میں مسکرا مسکرا کر باتیں کر سکتی ہوں،  مجھے ان کے پاس بیٹھنا بھی مشکل لگتا ہے، لیکن اب تک ہر ممکن کوشش کر کے دل پر پتھر رکھ کرخاموشی سے سب برداشت کر رہی ہوں نارملی بھی، ساتھ وقت گزارنا انتہائی تکلیف دہ ہے، اور وہ مجھے چھوڑنے پر راضی نہیں اور یہ کہتے ہیں کہ بس آپ گناہ گار نہیں ہوں گی۔لیکن ان کے کہنے سے کیا واقعی میرے لیے کوئی معافی ہے؟ انتہائی ذہنی تکلیف ہے۔اور یوں محسوس ہوتا ہے ایک دن دماغ کو کچھ ہوجائے گا۔ واللہ بہت تکلیف میں ہوں اپنی اذیت لفظوں میں نہیں بیان کرسکتی!

جواب

صورتِ مسئولہ میں آپ کے شوہر کے لیے آپ کی جسمانی طاقت کا لحاظ کرتے ہوئے آپ سے ازدواجی تعلق قائم کرنے کی اجازت ہے،  اگر ازدواجی تعلق قائم کرنے میں آپ کو زیادہ تکلیف کا سامنا ہو تو  آپ شوہر کو اطلاع کریں اور اس مسئلہ سے آگاہ کریں کہ آپ کی استاعت سے زیادہ ازدواجی تعلق قائم کرنا آپ کے شوہر کے لیے جائز نہیں ہے۔

ایک سے زائد شادیوں کی صورت میں شوہر کی ذمہ داری ہے کہ بیویوں کے درمیان نان و نفقہ میں حتی الوسع برابری کرے، نیز شب باشی میں برابری آپ کا حق ہے، اگر آپ اپنی مرضی سے اسے کم  یا معاف کرتی ہیں تو اس میں آپ گناہ گار نہیں ہوں گی، تاہم یہ آپ کا حق ہے، آئندہ آپ اس کا مطالبہ کرسکتی ہیں۔

پہلی بیوی کو دوسری شادی کا بتانا ضروری نہیں ہے، لیکن نکاح کرلینے کے بعد سب لوگوں سے چھپائے رکھنا بھی مناسب نہیں ہے، بدگمانی اور تہمت کا سبب بن سکتاہے، اس لیے حکمت کے ساتھ بتادینا چاہیے، البتہ جن سے فساد کا اندیشہ ہو انہیں نہ بتانے کی اجازت ہوگی۔

الموسوعة الفقهية الكويتية (44 / 13):
"وللزوج أن يطالبها بالوطء متى شاء إلا عند اعتراض أسباب مانعة من الوطء كالحيض والنفاس والظهار والإحرام وغير ذلك".
 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144106200177

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں