بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اذان کے بعد دعا مانگنے کا حکم


سوال

اذان کے بعد دعا مانگنا کیسا ہے?

جواب

واضح رہے کہ دعا مانگنے کے لیے شریعتِ مطہرہ کی رو سے کسی وقت کے بارے میں کوئی ممانعت وارد نہیں ہوئی ہے، البتہ بیت الخلاء میں، یا برہنہ حالت میں اللہ کا ذکر زبان سے منع ہے، لہٰذا ان مواقع کے علاوہ 24گھنٹوں میں سے صبح و شام میں کسی بھی وقت دعا مانگی جاسکتی ہے، البتہ بعض اوقات کے بارے میں احادیث میں وارد ہوا ہے کہ ان اوقات میں دعا زیادہ قبول ہوتی ہے، چنانچہ حدیث شریف میں مذکور ہے کہ اذان اور اقامت کے درمیانی وقت میں کی جانے والی دعا رد نہیں کی جاتی ہے،  اس لیے اس حدیث کی رو سے اگر اذان کے بعد مسنون دعا (جو مشہور ہے) اور درود شریف کے پڑھنے کے بعد اقامت تک اپنی کسی حاجت کے واسطے جو بھی دعا مانگی جائی، اس کی قبولیت کی زیادہ امید ہے، اس لیے اذان کے بعد دعا مانگنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ البتہ مسنون دعا پڑھتے وقت ہاتھ نہیں اُٹھانے چاہییں، اس میں اَدب یہی ہے۔ مسنون دعائیں اور درود شریف پڑھنے کے بعد، جداگانہ مستقل دعا مانگ رہے ہوں تو ہاتھ بھی اٹھا سکتے ہیں۔

سنن أبي داود (1/ 144):

"باب ما جاء في الدعاء بين الأذان والإقامة

حدثنا محمد بن كثير، أخبرنا سفيان، عن زيد العمي، عن أبي إياس، عن أنس بن مالك، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لايرد الدعاء بين الأذان والإقامة»".

بذل المجهود في حل سنن أبي داود (3/ 327):
"(عن أنس بن مالك قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لايرد الدعاء بين  الأذان والإقامة) يحتمل أن يكون المعنى أن الدعاء لايرد بين أثناء الأذان من حين ابتدائه إلى حين انتهائه، وكذا الإقامة، ويحتمل أن يكون المعنى أن الدعاء لايرد بين الوقت الذي من ابتداء الأذان إلى انتهاء الإقامة". 
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144103200285

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں