بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اذان و اقامت کے کلمات کے آخر کے اعراب کا حکم


سوال

الفاظِ اقامت کے آخر کے اعراب کا کیا حکم ہے؟

جواب

اذان و اقامت کے کلمات بالسکون کہے جائیں گے، یعنی ان کے آخر میں سکون پڑھا جائے گا۔

’’زبدۃ الفقہ‘‘  میں ہے:

’’اذان کے کلمات ٹھہر ٹھہر کر کہے اور اقامت جلدی یعنی رکے بغیر کہے، یہ مستحب طریقہ ہے ، اگر اذان کو بغیر  رکے کہے یا اقامت کو اذان کی طرح ٹھہر ٹھہر کر کہے تو جائز، لیکن مکروہ ہے۔ ایسی اذان کا اعادہ مستحب ہے اور ایسی اقامت کا اعادہ مستحب نہیں،  رک رک کر کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہر دو کلموں کے درمیان میں کچھ ٹھہرے اور اس کی مقدار یہ ہے کہ اذان کا جواب دینے والا جواب دے سکے، بغیر رکے کا مطلب ملانا اور جلدی کرنا ہے،  اَللّٰهُ أَکبَر دو دفعہ کہنے کے بعد رکے ہر دفعہ کے اَللّٰهُ أَکبَر کہنے پر نہ رکے یعنی اَللّٰهُ أَکبَر اَللّٰهُ اَکبَر ایک ساتھ کہے، پھر کچھ دیر ٹھہرے،  پھر   اَللّٰهُ أَکبَر اَللّٰهُ اَکبَر  ایک ساتھ کہے اور ٹھہرے، کیوں کہ سکتہ کے لحاظ سے اَللّٰهُ أَکبَر  دو دفعہ مل کر ایک کلمہ ہے، پھر ہر کلمہ کے اوپر توقف کرتا رہے، اذان اور اقامت میں ہر کلمہ پر وقف کا سکون کرتا رہے،  یعنی دوسرے کلمہ سے حرکت کے ساتھ وصل نہ کرے، لیکن اذان میں اصطلاحی وقف کرے، یعنی سانس کو توڑ دے اور اقامت میں سکون کی نیت کرے، کیوں کہ اس میں رک رک کر کہنا نہیں ہے، اذان میں ہر دوسری دفعہ کے اَللّٰهُ أَکبَر  یعنی دوسرے،  چوتھے اور چھٹے   اَللّٰهُ أَکبَر  کی رے کو جزم کرے اور حرکت نہ دے،  اور اس کو رفع ( پیش) پڑھنا غلطی ہے،  اور ہر پہلے  اَللّٰهُ أَکبَر  کی یعنی پہلے، تیسرے اور پانچویں کی رے اور اقامت کے اندر ہر  اَللّٰهُ أَکبَر  کی” ر” کو بھی سکون یعنی جزم کرے اور اگر وصل کرے تو وقف کی نیت کے ساتھ ” ر” کی زبر سے وصل کرنا سنت ہے، ضمہ (پیش) سے وصل کرنا خلافِ سنت ہے، اَللّٰهُ أَکبَر  کے لفظ  اَللّٰهُ کے الف ( ہمزہ) کو مد کرنا کفر ہے، جب کہ معنی جانتے ہوئے قصداً کہے۔  اور بلا قصد کہنا کفر تو نہیں، لیکن بڑی غلطی ہے ۔ اور   أَکبَر کے ب کو مدّ کرنا بہت بڑی غلطی ہے‘‘۔  ( کتاب الصلاۃ، اذان و اقامت کے سنن و مستحبات و مکروہات، ص: ١٦٢ - ١٦٣،  ط: زوار اکیڈمی پبلی کیشنز)

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 385):
"وبفتح راء أكبر والعوام يضمونها روضة، لكن في الطلبة معنى قوله عليه الصلاة والسلام: «الأذان جزم» أي مقطوع المد، فلا تقول: آلله أكبر؛ لأنه استفهام وإنه لحن شرعي، أو مقطوع حركة الآخر للوقف، فلايقف بالرفع؛ لأنه لحن لغوي فتاوى الصيرفية من الباب السادس والثلاثين.

(قوله: وبفتح راء أكبر إلى قوله ولا ترجيع) نقل أنه ملحق بخط الشارح على  هامش نسخته الأولى، وفي مجموعة الحفيد الهروي ما نصه: فائدة: في روضة العلماء قال ابن الأنباري: عوام الناس يضمون الراء في أكبر، وكان المبرد يقول الأذان سمع موقوفا في مقاطيعه، والأصل في أكبر تسكين الراء فحولت حركة ألف اسم الله إلى الراء كما في {الم - الله} [آل عمران: 1 - 2] وفي المغني: حركة الراء فتحة وإن وصل بنية الوقف، ثم قيل هي حركة الساكنين ولم يكسر حفظا لتفخيم الله، وقيل نقلت حركة الهمزة وكل هذا خروج عن الظاهر؛ والصواب أن حركة الراء ضمة إعراب، وليس لهمزة الوصل ثبوت في الدرج فتنقل حركتها، وبالجملة الفرق بين الأذان. وبين الم الله ظاهر فإنه ليس ل - الم الله - حركة إعراب أصلاً، وقد كانت لكلمات الأذان إعرابا إلا أنه سمعت موقوفة. اهـ. مطلب في الكلام على حديث «الأذان جزم».
وفي الإمداد: ويجزم الراء أي يسكنها في التكبير قال الزيلعي: يعني على الوقف، لكن في الأذان حقيقة، وفي الإقامة ينوي الوقف اهـ أي للحدر، وروي ذلك عن النخعي موقوفا عليه، ومرفوعا إلى النبي صلى الله عليه وسلم أنه قال: «الأذان جزم، والإقامة جزم، والتكبير جزم» ) . اهـ.
قلت: والحاصل أن التكبيرة الثانية في الأذان ساكنة الراء للوقف ورفعها خطأ، وأما التكبيرة الأولى من كل تكبيرتين منه وجميع تكبيرات الإقامة، فقيل محركة الراء بالفتحة على نية الوقف، وقيل بالضمة إعرابا، وقيل ساكنة بلا حركة على ما هو ظاهر كلام الإمداد والزيلعي والبدائع وجماعة من الشافعية. والذي يظهر الإعراب لما ذكره الشارح عن الطلبة، ولما قدمناه، ولما في الأحاديث المشتهرة للجراحي أنه سئل السيوطي عن هذا الحديث، فقال: هو غير ثابت كما قال الحافظ ابن حجر، وإنما هو من قول إبراهيم النخعي، ومعناه كما قال جماعة منهم الرافعي وابن الأثير أنه لايمد.
وأغرب المحب الطبري فقال: معناه لايمد ولا يعرب آخره، وهذا الثاني مردود بوجوه:
أحدها: مخالفته لتفسير الراوي عن النخعي، والرجوع إلى تفسيره أولى كما تقرر في الأصول.
ثانيها: مخالفته لما فسره أهل الحديث والفقه.
ثالثها: إطلاق الجزم على حذف الحركة الإعرابية، ولم يكن معهودا في الصدر الأول، وإنما هو اصطلاح حادث فلا يصح الحمل عليه. اهـ. وتمام الكلام عليه هناك فراجعه، على أن الجزم في الاصطلاح الحادث عند النحويين حذف حركة الإعراب للجازم فقط لا مطلقًا. ثم رأيت لسيدي عبد الغني رسالة في هذه المسألة سماها تصديق من أخبر بفتح راء الله أكبر أكثر فيها النقل.
وحاصلها أن السنة أن يسكن الراء من " الله أكبر " الأول أو يصلها ب " الله أكبر " الثانية، فإن سكنها كفى وإن وصلها نوى السكون فحرك الراء بالفتحة، فإن ضمها خالف السنة؛ لأن طلب الوقف على " أكبر " الأول صيره كالساكن أصالة فحرك بالفتح".
 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144105200026

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں