بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ادھار خرید وفروخت/ ایل سی ڈی، ایم پی تھری اور ڈش انٹینا فروخت کرنے کاحکم


سوال

1- ہم دس گیارہ مہینے کے ادھار پہ سامان بیچتے ہیں،  پچیس سو کی  چیز  پانچ ہزار پے بیچتے ہیں،  کبھی اس سے بھی مہنگا بیچتے ہیں، پانچ سو روپے  یا 1000،  کبھی ایڈوانس بھی لیتے ہیں،  ایڈوانس ضروری نہیں،  بس جس سے مرضی ہو لیتے  ہیں،  خریدار سے کبھی کبھی کھانا بھی کھاتے ہیں  تو یہ سب سود کے زمرے میں آتا ہے یا نہیں؟

2 - ایل سی ڈی ، ایم پی تھری اور ڈش انٹینا وغیر بھی بیچتے ہیں تو ان کا گناہ ہوگا یا نہیں؟

جواب

1- واضح رہے کہ خرید و فروخت کے شرعاً درست ہونے کے لیے  سودا کرتے وقت قیمت متعین کرنا (خواہ قیمت کم طے کرے یا زیادہ) شرعاً ضروری ہے، پس باہمی رضامندی سے نقد فروخت کرنے کی صورت میں کم قیمت اور ادھار فروخت کرنے کی صورت میں زیادہ قیمت متعین کرنا شرعاً درست ہے، بشرطیکہ عقد کے وقت نقد یا ادھار کوئی ایک صورت متعین کردی جائے۔  نیز ادھار فروخت کرنے میں عقد کے صحیح ہونے کے لیے ایک شرط یہ بھی ہے کہ خریدار کی جانب سے قیمت کی ادائیگی میں تاخیر کی صورت میں جرمانہ وغیرہ کے نام سے قیمت میں اضافہ نہ کیا جائے، اور قیمت جلد ادا کرنے کی صورت میں خریدار کے ذمے سے قیمت کم نہ کی جائے، بلکہ جو قیمت عقد کے وقت طے کردی گئی ہو اسی کے مطابق عقد انجام پذیر ہو۔  اگر اس شرط کی خلاف ورزی کی گئی تو سودا  شرعاً درست نہیں ہوگا۔

باقی خریدار سے ادھار  معاملہ کرتے ہوئے کچھ رقم بطورِ ایڈوانس لینا بھی جائز ہے۔ البتہ خریدار سے کھانے کے بارے میں یہ تفصیل ہے کہ اگر خریدار اس سودے  کی وجہ سے مجبور ہوکر کھانا کھلائے تو طیبِ نفس نہ ہونے کی وجہ سے یہ کھانا درست نہیں، البتہ اگر پرانے تعلق اور بے تکلفی کی بنیاد پر کھانا کھلائے اور اس کھلانے کا سودے پر کوئی اثر ظاہر نہ ہو تو اس میں کوئی حرج نہیں۔

2- ’’ایل سی ڈیز ‘‘ مختلف انواع کی ہوتی ہیں، بعض کمپیوٹر کے مونیٹر کے طور پر استعمال ہوتی ہیں، اور بعض کا استعمال  محض ٹی وی کے طور پر ہوتا ہے اور بعض ایل سی ڈیز میں دونوں مقاصد میں استعمال کیے جانے کی خصوصیت پائی جاتی ہے، پس پہلی اور تیسری قسم کی ایل سی ڈیز کے کاروبار کی شرعاً اجازت ہے، تاہم دوسری قسم کی ایل سی ڈیز کا کاروبار حلال نہیں، لہذا صورتِ  مسئولہ میں اگر مذکورہ کمپنی پہلے اور تیسری قسم کی ایل سی ڈیز کا کاروبار کرتی ہو تو  اس کا تمام منافع حلال شمار ہوگا، البتہ اگر دوسری قسم کی ایل سی ڈیز کا کاروبار کرتی ہو یا ایل سی ڈیز میں یہ قسم بھی شامل ہو تو اس صورت میں ان کی فروخت سے حاصل شدہ منافع  کا حصہ حلال نہ ہوگا۔

’’ایم پی تھری‘‘ کاکاروبار کرناجائز ہے اور اس سے حاصل ہونے والا نفع حلال ہے۔ اگر کوئی  شخص اسےخرید کر  ناجائز امور میں استعمال کرتا ہےتو   اس کا گناہ اسے ہی ملے گا۔

’’ڈش انٹینا‘‘  کا کاروبار کرنا شرعاً ناجائز ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"( و ) جاز ( بيع عصير ) عنب ( ممن ) يعلم أنه ( يتخذه خمراً )؛ لأن المعصية لا تقوم بعينه بل بعد تغيره۔ وقيل: يكره؛ لإعانته على المعصية، ونقل المصنف عن السراج والمشكلات: أن قوله: ممن أي من كافر، أما بيعه من المسلم فيكره، ومثله في الجوهرة و الباقاني وغيرهما، زاد القهستاني معزياً للخانية: أنه يكره بالاتفاق، ( بخلاف بيع أمرد ممن يلوط به وبيع سلاح من أهل الفتنة )؛ لأن المعصية تقوم بيعنه، ثم الكراهة في مسألة الأمرد مصرح بها في بيوع الخانية وغيرها، واعتمده المصنف على خلاف ما في الزيلعي و العيني وإن أقره المصنف في باب البغاة.

قلت: وقدمنا ثمة معزياً للنهر أن ما قامت المعصية بعينه يكره بيعه تحريماً، وإلا فتنزيهاً فليحفظ توفيقاً". ( كتاب الحظر و الإباحة، فصل في البيع ٦/ ۳۹۱ ط: سعید) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144104200385

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں