بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

احد اور ارحم نام رکھنا کیسا ہے عبد کے بغیر؟


سوال

’’احد‘‘  اور ’’ارحم‘‘  نام رکھنا کیسا ہے ’’عبد‘‘  کے بغیر اکیلا؟

جواب

’’ارحم‘‘ کا معنی ہے:  زیادہ رحم دل، ایک حدیث میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو  ’’أرحم أمتي‘‘  یعنی امت کا سب سے زیادہ رحیم شخص کہا گیا ہے،  اور ایک اور حدیث میں ہے حضرت انسں بن مالک فرماتے ہیں کہ میں نے  آپ ﷺ سے زیادہ کسی اور کو اپنے اہل وعیال پر رحم کرنے والا نہیں دیکھا،  یہاں آپ ﷺ کے لیے بھی ’’أرحم‘‘ کا لفظ استعمال کیا  گیاہے،  اس لیے ’’أرحم‘‘  نام رکھنا جائز ہے اور اس میں شرعاً  کوئی قباحت نہیں ہے۔

’’احد‘‘ (ہمزہ اور حا پر زبر  کے ساتھ) یہ اللہ کے  مخصوص ناموں میں سے ہے اس کا  حقیقی معنی  ہے: ’’اپنی ذات وصفات میں یکتا‘‘. البتہ مجازی اعتبار  سے کسی  بھی عمل میں اکیلے شخص پر  اس کا اطلاق ہوتا ہے؛ لہذا  اس بعد والے معنی کے اعتبار سے صرف ’’احد‘‘  نام رکھنے کی گنجائش تو ہوگی، لیکن بہتر یہ ہے کہ   اگر یہ نام رکھنا ہو تو ’’احد‘‘  کے ساتھ ’’عبد‘‘  کا لفظ لگاکر نام رکھا جائے (یعنی عبد الاحد) ۔ 

سنن الترمذي ت شاكر (5/ 664):

’’عن أنس بن مالك، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أرحم أمتي بأمتي أبو بكر‘‘. 

صحيح مسلم (4/ 1808):

’’عن أنس بن مالك، قال: «ما رأيت أحداً كان أرحم بالعيال من رسول الله صلى الله عليه وسلم»‘‘.

مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

"اللہ تعالیٰ کے صفاتی نام دو طرح کے ہیں: پہلی قسم:وہ نام ہیں جوقرآن و حدیث میں غیراللہ کے لیے بھی استعمال ہوئے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے لیے بھی۔ غنی، حق، حمید، طاہر، جلیل، رحیم، رشید، علی، کریم، عزیز وغیرہ کا استعمال قرآن و حدیث میں اللہ تعالیٰ کے علاوہ بندوں کے لیے بھی ہواہے؛ لہٰذا ایسے صفاتی نام بندوں کے لیے بھی رکھے جاسکتے ہیں، اور ان ناموں کے ساتھ عبد لگانا ضروری نہیں۔ دوسری قسم:وہ نام ہیں جوقرآن و حدیث میں صرف اللہ تعالیٰ کے لیے استعمال ہوئے ہیں اور غیراللہ کے لیے ان کا استعمال ثابت نہیں ہے۔ "رحمن، سبحان، رزّاق، خالق، غفار " قرآن وسنت میں اللہ تعالیٰ کے سوا دوسروں کے لیے نہیں آتے؛ لہٰذا ان ناموں کے ساتھ کسی کا نام رکھنا ہو تو ان کے ساتھ "عبد" کا لفظ ملانا ضروری ہے، جیسے: عبدالرحمن، عبدالسبحان، عبدالرزاق، عبدالخالق، عبدالغفار وغیرہ۔ بعض لوگ لاعلمی یا لاپروائی کی بنا پر عبدالرحمن کو رحمٰن، عبدالرزاق کو رزّاق، عبدالخالق کو خالق، عبدالغفار کو غفار کہہ کر پکارتے ہیں، ایسا کرنا ناجائز ہے۔" مفتی محمد شفیع صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’ایسا کرنا گناہِ کبیرہ ہے۔ جتنی مرتبہ یہ لفظ پکارا جاتا ہے اتنی ہی مرتبہ گناہِ کبیرہ کا ارتکاب ہوتا ہے اور سننے والا بھی گناہ سے خالی نہیں ہوتا‘‘۔ (تفسیر معارف القرآن، تفسیر آیت ۱۸۰،ص ۱۳۲، ج ۴)

 

أحد

  • " في أَسماءِ الله تعالى : الأَحد وهو الفرد الذي لم يزل وحده ولم يكن معه آخر ، وهو اسم بني لنفي ما يذكر معه من العدد، تقول: ما جاءَني أَحد، والهمزة بدل من الواو وأَصله وَحَدٌ لأَنه من الوَحْدة.
    والأَحَد: بمعنى الواحد وهو أَوَّل العدد، تقول أَحد واثنان وأَحد عشر وإِحدى عشرة.
    وأَما قوله تعالى: {قل هو الله أَحد} ؛ فهو بدل من الله؛ لأَن النكرة قد تبدل من المعرفة كما، قال الله تعالى: {لنسفعنْ بالناصية ناصية} ؛ قال الكسائي : إِذا أَدخلت في العدد الأَلف واللام فادخلهما في العدد كله ،...

    المزيد المعجم: لسان العرب:

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 417):

"وجاز التسمية بعلي ورشيد من الأسماء المشتركة ويراد في حقنا غير ما يراد في حق الله تعالى. 

 (قوله: وجاز التسمية بعلي إلخ) الذي في التتارخانية عن السراجية التسمية باسم يوجد في كتاب الله تعالى كالعلي والكبير والرشيد والبديع جائزة إلخ، ومثله في المنح عنها وظاهره الجواز ولو معرفاً بأل". فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144105200259

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں