بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

اجازت کے بغیر گھر سے نکلنے پر طلاق کو معلق کرنا اور اس کے بعد اس مکان کو دیکھ کر آنے کا حکم دینا


سوال

 کسی شوہر نے اپنی بیوی سے کہا کہ آپ میری اجازت کے بغیر جب بھی اس گھر سے نکلو گی تو آپ کو طلاق ہوگی،  اب شوہر  اس گھر کو چھوڑ کر دوسرے گھر پر چلا گیا،  لیکن پہلے والے گھر میں سامان عارضی طور پر رکھا ہوا ہے،  ابھی ایک مہینے کے بعد وہ عورت پرانے گھر پر آئی جس میں سامان عارضی طور پر رکھا ہوا تھا،  اس کو دیکھنے کے  لیے،  رہائش کے لیے نہیں آئی تھی،  ابھی عورت عارضی طور پر سامان دیکھنے کے بعد اس گھر سے نکلی شوہر کی اجازت کے بغیر،  اب یہ طلاق واقع ہوگی یا نہیں؟

نوٹ: شوہر نے سسرال فون کیا تھا کہ سامان دیکھ کر آجاؤ توبیوی وہاں چلی گئی ؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں شوہر کے اس جملہ کے بعد  ” آپ میری اجازت کے بغیر جب بھی اس گھر سے نکلو گی تو آپ کو طلاق ہوگی“  جب بھی بیوی شوہر کی اجازت کے بغیر اس مکان سے نکلے گی اس پر ایک طلاق واقع ہوجائے گی، اور اگر اجازت سے نکلے گی تو کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی، لہذا اگر بیوی شوہر کی اجازت سے اس مکان سے نکل کر شوہر کے ساتھ دوسرے مکان میں شفٹ ہوگئی تھی تو  اس سے بیوی پر طلاق واقع نہیں ہوئی تھی، بعد ازاں جب شوہر نے بیوی کو فون کرکے یہ کہا کہ ”اس پرانے گھر میں جاکر سامان دیکھ کر آجاؤ“ تو یہ شوہر کی طرف سے گھر دیکھنے کے بعد دوبارہ اس سے نکلنے کی اجازت ہے، لہذا  بیوی کے اس گھر سے نکلنے سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی۔

اب اگر شوہر اس تعلیق کو ختم کرنا چاہتا ہے تو وہ صراحت سے  بیوی سے یہ الفاظ کہہ دے کہ میں نے تجھے ہمیشہ کے لیے اس گھر سے نکلنے کی اجازت دے دی، تم جب چاہو میری اجازت کے بغیر  اس گھر سے نکل سکتی ہو تو اس کے بعد بیوی کے اس گھر سے نکلنے سے اس پر طلاق واقع نہیں ہوگی۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 758):
"(لاتخرجي) بغير إذني أو (إلا بإذني) أو بأمري أو بعلمي أو برضاي (شرط) للبر (لكل خروج إذن) إلا لغرق أو حرق أو فرقة ولو نوى الإذن مرةً دين، وتنحل يمينه بخروجها مرةً بلا إذن، ولو قال: كلما خرجت فقد أذنت لك سقط إذنه، ولو نهاها بعد ذلك صح عند محمد، وعليه الفتوى.

مطلب "لاتخرجي إلا بإذني"
(قوله: شرط للبر لكل خروج إذن) للبر متعلق بشرط، ولكل متعلق بنائب الفاعل وهو إذن لا بشرط لئلا يلزم تعدية فعل بحرفين متفقي اللفظ والمعنى أفاده القهستاني، ثم لايخفى أن اشتراط الإذن راجع لقوله: إلا بإذني أما ما بعده فيشترط فيه الأمر أو العلم أو الرضا، وإنما شرط تكراره لأن المستثنى خروج مقرون بالإذن فما وراءه داخل في المنع العام لأن المعنى لاتخرجي خروجاً إلا خروجاً ملصقاً بإذني، قال في النهر: ويشترط في إذنه لها أن تسمعه وإلا لم يكن إذناً وأن تفهمه، فلو أذن لها بالعربية ولا عهد لها بها فخرجت حنثت، وأن لاتقوم قرينة على أنه لم يرد الإذن فلو قال لها: اخرجي أما والله لو خرجت ليخزينك الله لايكون إذناً، صرح به محمد، وكذا لو قال لها في غضب: اخرجي، ينوي التهديد لم يكن إذناً؛ إذ المعنى حينئذ اخرجي حتى تطلقي اهـ ملخصاً.
وفي البزازية: قامت للخروج فقال دعوها تخرج ولا نية له لم يكن إذناً، ولو سمع سائلاً فقال لها: أعطيه لقمةً فإن لم تقدر على إعطائه بلا خروج كان إذناً بالخروج وإلا فلا، وإن قال: اشتر اللحم فهو إذن، ولو أذن لها بالخروج إلى بعض أقاربه فخرجت لكنس الباب أو خرجت في وقت آخر حنث، ولو استأذنت في زيارة الأم فخرجت إلى بيت الأخ لايحنث لوجود الإذن بالخروج، إلا إن قال: إن خرجت إلى أحد إلا بإذني وفي لاتخرجي إلا برضاي فإذن ولم تسمع أو سمعت ولم تفهم لايحنث بالخروج؛ لأن الرضا يتحقق بلا علمها بخلاف الإذن، وفي إلا بأمري فالأمر أن يسمعها بنفسه أو رسوله وفي الإرادة والهوى والرضا لايشترط سماعها، وفي إلا بعلمي لايحنث لو خرجت وهو يراها أو أذن لها بالخروج فخرجت بعده بلا علمه اهـ ملخصاً، وتمام فروع المسألة هناك.
قال في البحر: ولا فرق في المسألة بين أن يكون المخاطب الزوجة أو العبد بخلاف ما لو قال: لا أكلم فلاناً إلا بإذن فلان أو حتى يأذن أو إلا أن يأذن، أو إلا أن يقدم فلان أو حتى يقدم، أو قال لرجل في داره: والله لاتخرج إلا بإذني، فإنه لايتكرر الإذن في هذا كله؛ لأن قدوم فلان لايتكرر عادةً، والإذن في الكلام يتناول كل ما يوجد من الكلام بعد الإذن، وكذا خروج الرجل مما لايتكرر عادةً، بخلاف الإذن للزوجة فإنه لايتناول إلا ذلك الخروج المأذون فيه لا كل خروج إلا بنص صريح فيه مثل: أذنت لك أن تخرجي كلما أردت الخروج، كذا في الفتح. اهـ". 
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012201358

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں