بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک کی تقلید ضروری ہے


سوال

ہمارے چارامام ہیں،  اگر کوئی ان چاروں امام میں سے کسی ایک امام کی تقلید نہ کرے تو کیا وہ مسلمان ہے؟ جیسا کہ اہلِ حدیث کسی امام کی تقلید نہیں کرتے اور اپنے آپ کو حدیث شریف پر عمل کرنے والا بولتے ہیں، جب کہ حدیث شریف بھی امام نے لکھی ہے؟

جواب

واضح رہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی شریعت پر مکمل طور پر بسہولت عمل کرنے کے لیے چاروں اماموں میں سے کسی ایک امام کی تقلید  و پیروی کرنا شرعاً ضروری ہے؛ اس لیے کہ تکوینی طور پر اللہ رب العزت نے دین فہمی و نصوصِ شرعیہ سے استنباطِ مسائل کا جو ملکہ ان حضرات کو عطا کیا تھا وہ ان کے بعد  والوں میں سے کسی کو حاصل نہ ہوا، اور ان حضرات کے مذاہب و مسالک کو جو قبولیتِ عامہ حاصل ہوئی وہ کسی اور  مجتہد عالم کو حاصل نہ ہوئی،  یہی وجہ ہے کہ ان ائمہ فقہ کے مقلدین  میں بڑے بڑے محدثین کے نام ملتے ہیں جو احادیث سے مسائل استنباط کرنے میں اور ان پر  عمل کرنے میں ان چار ائمہ فقہ میں سے کسی ایک کی تقلید کرتے تھے اور  ان حضرات فقہاءِ کرام کے مقلدین  ساری دنیا میں موجود ہیں اور تعلیمِ دین اور دین پر صحیح طریقہ پر عمل کرنے میں مصروف ہیں؛ پس ان ائمہ فقہ میں سے کسی ایک کی بھی تقلید نہ کرنا اور اپنے آپ کو قرآن و حدیث خود سے آزادانہ طور  پرمسائل سمجھنے  اور ان سے مسائل استنباط  کرنے کے قابل سمجھنا ناسمجھی، خودپسندی اور کم علمی کی دلیل ہے،  یہی وجہ ہے کہ ایسے افراد  عموماً بعض روایات کو سامنے رکھ کر بقیہ نصوصِ شرعیہ کو پس پشت ڈال کر ایسے ایسے مسائل بیان کرتے ہیں جو اجماعِ صحابہ و اجماعِ امت کے صریح خلاف ہوتے ہیں۔

ایسے افراد  دائرہ اسلام سے تو خارج نہیں ہوتے ، البتہ سوادِ اعظم سے خارج شمار ہوں گے۔ جیساکہ "العقد الجید" میں ہے:

"ولما اندرست المذاهب الحقة إلا هذه الأربعة كان اتباعاً للسواد الاعظم، و الخروج عنها خروجاً عن السواد الأعظم". (ص: ٣٨)

"خلاصة التحقيق في بيان حكم التقليد و التلفيق"میں ہے:

"أما تقليد مذهب من مذاهبهم (أي من مذاهب المتقدمين من الصحابة و التابعين) الآن غير المذاهب الأربعة فلايجوز، لا لنقصان في مذهبهم و رجحان المذاهب الأربعة عليهم، لأن فيهم الخلفاء المفضلين علي جميع الأمة بل لعدم تدوين مذاهبهم و عدم معرفتنا الآن بشروطها و قيودها و عدم وصول ذلك إلينا بطريق التواتر، حتي لو وصل إلينا شيء من ذلك كذلك جاز لنا تقليده لكنه لم يصل كذلك". (ص: ٣)۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909201427

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں