بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

آن لائن کھیل میں جیتے ہوئے مال کا حکم


سوال

کیا آن لائن کھیل کے ذریعہ جیتے ہوئے مال کا استعمال جائز ہے؟

جواب

واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ میں اُن کھیلوں کی اجازت ہے جن سے آخرت کا کوئی نقصان نہ ہوتا ہو اور  دنیوی فائدہ حاصل ہوتا ہو، اور  جس کام سے آخرت یا دنیا کا کوئی فائدہ نہ ہو، بلکہ ضیاعِ وقت اور جان و مال کا نقصان ہو تو ایسا کھیل شرعاً وعقلاً پسندیدہ نہیں؛ لہذا اس نوعیت کے کھیلوں سے احتراز ضروری ہے۔  آن لائن کھیلوں میں اگر کوئی نقصان نہ بھی ہو تو بظاہر دینی یا دنیاوی فائدہ نہیں ہے، اس لیے ان سے اجتناب  کرنا چاہیے، اور اگر کھیل میں جان دار کی تصویر ہو تو ایسے کھیل کھیلنا جائز نہیں ہوگا۔ 

بہر حال جائز کھیل میں جیتے ہوئے مال کی حلت اور حرمت کا تعلق اس میں لگائی گئی شرط سے ہوتا ہے، اگر وہ شرط شریعت کے مطابق ہو گی تو جیتا ہوا مال حلال ہو گا اور اگر شرط شرعاً نا جائز ہو گی تو جیتا ہوا مال بھی حلال نہ ہو گا۔

اس کی مختلف  صورتیں ہو سکتی ہیں:

اگر شرط جانبین سے ہو یعنی یہ طے پایا ہو کہ ٍجو فریق جیتے گا وہ دوسرے فریق کو انعام دے گاتو ایسی شرط لگانا شرعاً جائز نہیں ہے اور اس وجہ سے جیتنے والے فریق کے لیے انعام وصول کرنا اور اس کا استعمال بھی جائز نہ ہو گا۔

اگر شرط کسی ایک جانب سے ہو، دوسری جانب سے نہ ہو  تو ایسی شرط لگانا شرعاً جائز ہے اور اس صورت میں ملنے والا انعام وصول کرنا اور استعمال کرنا جائز ہے۔

اور اگر انعام کسی ایسے ثالث کی طرف سے مقرر کیا جائے جو خود مقابلہ میں شامل نہ ہو اور اپنی طرف سے بطورِ تبرع جیتنے والے کو انعام دے تو یہ صورت بھی جائز ہے۔

لہذا آن لائن کھیلوں کو مذکورہ ضابطے پر پرکھ کر دیکھ لینا چاہیے، اگر پہلی صورت کے مطابق انعام مل رہا ہو تو اس کا استعمال جائز نہ ہو گا اور دوسری و تیسری صورت کے مطابق ملنے والا انعام وصول کرنا جائز ہو گا۔  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144004200654

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں