بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

آفس میں عورت کے ساتھ ہال میں تنہا کام کرنا


سوال

میں جہاں کام کرتا ہوں، وہاں ایک لڑکی میرے ساتھ کام کرتی ہے اور ہم دونوں ایک ہال میں اکیلے ہوتے ہیں تو کیا میرا وہاں کام کرنا ٹھیک ہے یا نہیں؟ اور اگر ٹھیک نہیں ہے تو مجھے کیا کرنا چاہیے؟  مالی حالات  کچھ ایسے ہیں کہ جاب نہیں چھوڑ سکتا ؟ 

جواب

شریعتِ مطہرہ میں نامحرم مرد و زن کے اختلاط سے سختی سے منع کیا گیا ہے، نامحرم عورتوں سے بلاضرورتِ شرعیہ بات کرنا، ان کی طرف دیکھنا شرعاً جائز نہیں ہے، خصوصاً ایسا مخلوط ماحول جہاں مرد اور عورت ایک ہال میں اکیلے ہوں ، کوئی تیسرا شخص نہ ہو ، ایسی خلوت کسی اجنبی عورت کے ساتھ جائز نہیں ۔ حدیث شریف میں ہے:

"عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِيَّاکُمْ وَالدُّخُولَ عَلَی النِّسَاء! فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَفَرَأَيْتَ الْحَمْوَ؟ قَالَ: الْحَمْوُ الْمَوْتُ. قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ وَجَابِرٍ وَعَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، قَالَ أَبُو عِيسَی: حَدِيثُ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَإِنَّمَا مَعْنَی کَرَاهِيَةِ الدُّخُولِ عَلَی النِّسَاء عَلَی نَحْوِ مَا رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَا يَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَةٍ إِلَّا کَانَ ثَالِثَهُمَا الشَّيْطَانُ". (ترمذی)
ترجمہ:  حضرت عقبہ بن عامر سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:عورتوں کے پاس داخل ہونے سے پرہیز کرو ، ایک انصاری شخص نے عرض کیا:  یا رسول اللہ ﷺ حمو (یعنی شوہر کا باپ، بھائی اور عزیز واقارب) کے بارے میں  کیا ارشاد ہے؟  آپ نے فرمایا :’’حمو‘‘ تو موت ہے۔  اس باب میں حضرت عمر اور جابر، عمرو بن عاص سے بھی روایت ہے۔ حضرت عقبہ بن عامر کی حدیث حسن صحیح ہے، عورتوں کے پاس  جانے سے ممانعت کا مطلب اسی طرح ہے جیسے کہ آپ ﷺ نے فرمایا :جب کوئی شخص کسی تنہا عورت کے پاس ہو تو تیسرا شیطان ہوتا ہے۔  

"وعن جابر رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " ألا لايبتن رجل عند امرأة ثيب إلا أن يكون ناكحاً أو ذا محرم ". رواه مسلم (2/203)

ترجمہ: حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: خبر دار! کوئی مرد کسی عورت کے پاس نہ ٹھہرے مگر یہ کہ وہ اس کا شوہر ہو یا اس کا  محرم ہو۔

خلاصہ یہ کہ غیر محرم عورت کے ساتھ خلوت (تنہائی میں رہنا) جائز نہیں ہے؛ لہذا کوشش کرکے اسی ادارے میں اپنا کام یا شعبہ تبدیل کروالیجیے، جہاں اس طرح عورتوں کے ساتھ تنہائی کا موقع نہ ملتا ہو یا اسی جگہ کی ترتیب ایسی بنوالیجیے کہ اس ہال میں ایک مرد یا ایک عورت تنہا نہ ہو، یعنی صرف ایک مرد یا صرف ایک عورت کے اضافے سے یہ ممانعت ختم نہیں ہوگی۔  ورنہ دوسری جگہ ملازمت کی فوری تلاش شروع کیجیے، اور قدرِ کفایت روزگار ملتے ہی یہاں سے ملازمت چھوڑ دیجیے، گو دوسری جگہ تنخواہ نسبتاً کم ہو۔  اور جب تک دوسری جگہ ملازمت نہیں مل جاتی مسلسل توبہ و استغفار کرتے ہوئے اللہ کی طرف رجوع کیجیے، متبادل کی دعا بھی کرتے رہیے، نیز  درج ذیل باتوں کا سختی سے اہتمام بھی کیجیے:

1-  جس ہال میں بیٹھنا ہو اس کا دروازہ یا کھڑکی وغیرہ مکمل وقت کھول کر رکھیں، اور اپنی نشست ایسی جگہ بنالیں کہ باہر سے گزرنے والے لوگوں کی نگاہ آپ پر پڑتی رہے، یعنی مکمل طور پر خلوت بالاجنبیہ نہ ہونے دیں۔ 

2- خواتین کے چہرے کی طرف نگاہ نہ کریں۔ 

3-  مجبوراً   اگراس غیر محرم عورت سے بات کرنے کی ضرورت پیش آجائےتو  بوقتِ ضرورت بقدرِ ضرورت بات کریں، بلاضرورت باتیں،  ہنسی مزاح کرنے یا اس کا جواب دینا  یا بلاضرورت اس کی طرف دیکھنا جائز نہیں ہے، اس سے اجتناب کریں۔   

’’ إلا من أجنبیة فلایحلّ مسّ وجهها وکفها وإن أمن الشهوة؛ لأنه أغلظ ... وفي الأشباه: الخلوة بالأجنبیة حرام … ثم رأیت في منیة المفتي مانصه: الخلوة بالأجنبیة مکروهة وإن کانت معها أخریٰ کراهة تحریم ‘‘ … ( درمختار مع الشامی : ۲۶۰ / ۵ ) 

قال  العلامة الحصکفي رحمه اللّٰه تعالیٰ:

"وفي الشرنبلالیة معز یاً للجوهرة: و لایکلم الأجنبیة إلا عجوزاً عطست أوسلمت فیشمتها و یرد السلام علیها، و إلا لا. انتهی. وبه بان أن لفظة "لا" في نقل القهستاني "ویکلمها بما لایحتاج إلیه" زائدة، فتنبه".

و قال العلامة ابن عابدین رحمه اللّٰه تعالیٰ:

"(قوله: زائدة) ببعده قوله في القنیة رامزاً: ویجوز الکلام المباح مع امرأَة أجنبیة اهـ و في المجتبی رامزاً: و في الحدیث دلیل علی أنه لا بأس أن یتکلم مع النساء بما لایحتاج إلیه، و لیس هذا من الخوض في ما لایعنیه، إنما ذلك في کلام فیه إثم اهـ فالظاهر أنه قول اٰخر أو محمول علی العجوز، تأمل. و تقدم في شروط الصلاة: أن صوت المرأة عورة علی الراحج، و مرالکلام فیه فراجعه". (ردالمحتار۲۳۶؍۵) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012201875

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں