زید کی بیوی اپنی سہیلی کی شادی میں جانے کے لیے ضد کر رہی تھی جب کہ زید منع کر رہا تھا، جب وہ نہیں مانی تو زید نے کہہ دیا کہ تیری مرضی، آزاد ہے تو ، میں کچھ نہیں کہوں گا، جب کہ زید کی نیت طلاق کی بالکل نہیں تھی تو کیا مذکورہ صورت میں طلاق ہوگی یا نہیں؟
واضح رہے کہ لفظِ " آزاد" ہمارے عرف میں وقوعِ طلاق کے اعتبار سے صریح ہے، یعنی اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو "آزاد" کہتا ہے تو اس سے اس کی بیوی پر ایک طلاقِ بائن واقع ہوجائے گی اور نکاح ٹوٹ جائے گا، لیکن لفظِ آزاد سے طلاق کا وقوع اس شرط کے ساتھ مشروط ہے کہ کوئی ایسا لفظی یا معنوی قرینہ موجود نہ ہو جو طلاق کے عدمِ وقوع پر دلالت کرتا ہو ، مثلا :’’تم آزاد ہو جو چاہو پہنو،جو چاہو پہنو ‘‘عدمِ وقوع طلاق کا قرینہ ہے، اس لیے طلاق واقع نہیں ہو گی۔
لہذا صورتِ مسئولہ میں شوہر نے جب یہ کہا: " تیری مرضی، آزاد ہے تو ، میں کچھ نہیں کہوں گا"، اس سے مراد چوں کہ شادی میں جانے کی اجازت دینا تھا، اس لیے طلاق واقع نہیں ہوئی۔فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144012201955
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن