بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

آبِ زمزم تقسیم کرنا


سوال

کیا حج کے بعد تبرک کے طور پر آبِ  زمزم تقسیم کیا جاسکتا ہے؟

جواب

آبِ زمزم کو تبرک کے طور پر ساتھ لے جانا متفقہ طور پر مستحب عمل ہے، روایات میں آتا ہے کہ  سہیل بن عمرو  رضی اللہ عنہ نے  آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب دو مشکیزے زمزم کے ارسال کیے، نیز  آپ صلی اللہ علیہ وسلم زمزم کا پانی مختلف برتنوں اور مشکیزوں میں بھر کر لاتے تھے، مریضوں پر   ڈالتے اور انہیں پلاتے تھے، اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بھی زمزم کا پانی لاتی تھیں اور فرماتیں  کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنے ساتھ زمزم کا پانی لاتے تھے۔

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (2/ 603):
’’ونظيره: ماء زمزم فإنه عليه السلام كان يستهديه من أمير مكة؛ ليتبرك به أهل المدينة".

مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (5/ 1865):
"وأما نقل ماء زمزم للتبرك به فمندوب اتفاقاً، لأنه صلى الله عليه وسلم استهداه وهو بالمدينة من سهيل بن عمرو عام الحديبية، فبعث إليه بمزادتين. رواه البيهقي. قال: وفي رواية: «أنه عليه الصلاة والسلام حمله في الأداوي والقرب، وكان يصب على المريض ويستشفيهم به». وصح «عن عائشة: أنها كانت تنقله وتخبر أنه عليه الصلاة والسلام كان ينقله»".
 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012200629

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں