فتحِ طالبان: نصرتِ الٰہی کا مظہر
الحمد للہ و سلامٌ علٰی عبادہ الذین اصطفٰی
گیارہ ستمبر ۲۰۰۱ء میں امریکا کے ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے گرائے جانے کا جو ڈراما رَچایا گیا، اس کی آج تک آزادانہ طور پر تحقیقات نہیں کرائی جاسکیں، اس کی پاداش میں ۷ ؍اکتوبر ۲۰۰۱ء میں امریکہ اپنی اتحادی ۴۵؍ ممالک کی افواج کے ساتھ ’’امارتِ اسلامی افغانستان‘‘ کی طالبان حکومت کے خلاف چڑھ دوڑا اور اس نے جواز یہ گھڑا کہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ القاعدہ اور اسامہ بن لادنؒ نے کرایا ہے اور اسامہ بن لادنؒ افغانستان میں ہے ، یا تو طالبان اُن کو ہمارے حوالہ کریں یا اپنے اوپر حملہ کے لیے تیار ہوجائیں۔ اس وقت کے امریکی صدر بش نے طالبان کو دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ ہم تمہیں پتھر کے زمانہ میں پہنچادیں گے اور تمہارے لیے دنیا بھر کی زمین تنگ کردیں گے، مزید یہ کہ مغربی ممالک کو اپنا ہم نوا بنانے کے لیے اس نے ’’کروسیڈ‘‘ یعنی طالبان کے خلاف جنگ کو صلیبی جنگ قراردیا اور دنیا بھر کے ممالک سے کہا: جو اس جنگ میں ہمارا ساتھ دے گا، وہ ہمارا دوست ہوگا اور جس نے ہمارا ساتھ نہ دیا، وہ ہمارا دشمن تصور ہوگا۔ امریکہ کی اس دھمکی کے آگے بہت سے ممالک ڈھیر ہوگئے، یہاں تک کہ طالبان کی ہمنوائی کرنے والا کوئی ایک ملک بھی فرنٹ پر نہ رہا۔
حالانکہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر میں نہ طالبان حکومت ملوث تھی، اور نہ ہی افغانستان کا کوئی فرد اس میں شریک تھا۔ اس وقت طالبان کے سربراہ امیرالمؤمنین ملامحمد عمر رحمۃ اللہ علیہ نے امریکا اور اس کے اتحادیوں سے کہا کہ اگر اُسامہ بن لادنؒ اس میں شریک ہے تو اس کے ثبوت اور شواہد پیش کیے جائیں، ورنہ وہ ہمارا مہمان ہے اور ہماری روایت اور ثقافت کے خلاف ہے کہ ہم اپنا ایک مسلمان بھائی کفار کے حوالہ کردیں۔ امریکہ نے اپنے اتحادیوں سمیت افغان طالبان پر چڑھائی کردی، اُن کی ۱۹۹۶ء تا ۲۰۰۱ء کی پرامن حکومت کا خاتمہ کردیا، حالانکہ طالبان حکومت کے دور میں افغانستان میں مثالی امن وامان تھا، افیون کی کاشت زیرو پر آگئی تھی، چوری، ڈکیتی، بھتہ، تاوان سب کچھ ختم ہوگیا تھا اور طالبان کی اسلامی حکومت کی جانب سے نافذ کردہ اسلامی اصلاحات تھیں، جن پر پورے ملک میں عمل درآمد ہورہا تھا اور افغان عوام کی اکثریت طالبان حکومت سے خوش تھی۔ امریکہ کے اس حملے کے خلاف ملامحمد عمرؒ نے اللہ تعالیٰ کی مدد ونصرت کے سہارے طالبان کو شرعی جہاد کا حکم دیا اور کہا: چونکہ امریکہ نے ہمارے اوپر یلغار کی ہے، اسلام اور ملکی دفاع میں ان کے خلاف مزاحمت اور ان کا راستہ روکنا ہمارا شرعی، قانونی اور اخلاقی حق ہے، اس حق سے ہمیں کوئی نہیں روک سکتا۔
اسباب کی دنیا میں دیکھا جائے تو طالبان اور امریکی اتحادیوں کے مابین کوئی توازن یا مقابلہ نہیں تھا، کہاں سیٹلائٹ سسٹم، ڈیزی کٹربم، ڈرون ٹیکنا لوجی، بی ۵۲ طیارے اور تباہ کن میزائل سمیت دورِ حاضر کے جدید ترین ترین جنگی جہاز اور آلات اور کہاں روایتی بندوق تھامے طالبان، مگر عزم وہمت، صبروثبات، رب کی مددونصرت پر یقینِ کامل اور جہدِ مسلسل نے طالبان کو امریکا سمیت ۴۵ ؍ممالک کی افواج سے بھڑجانے کا عزم وحوصلہ اور فولادی قوت عطا کردی۔
امریکہ اور اتحادیوں نے جب افغانستان پر چڑھائی کی تو کیا کچھ افغان قوم پر مظالم نہیں کیے، ان پر کارپٹ بمباری کرنا، ان کی مساجد اور مدارس کو نشانہ بناکر ان پر حملہ کرنا، ان کی شادیوں اور باراتیوں پر بم برسانا، گاڑیوں میں موجود مسافروں کو بموں سے اُڑانا، ہسپتالوں کو ٹارگٹ کرنا، جس میں درجنوں اور سینکڑوں مریضوں کو شہید کرنا، مجاہدین کو گوانتا ناموبے جیل کے لوہے کے پنجروں میں قید کرنا، طالبان قیادت کے اکابرین کو بلیک لسٹ کرنا اور ان پر دنیا بھر میں سفر کی پابندی عائد کرنا سمیت کونسی ایسی سزا اور صعوبت تھی، جو اُن کو نہ دی گئی۔ اگر ان بیس سالہ دور کے امریکی اور اس کے اتحادیوں کے مظالم کی فہرست بنائی جائے تو ایک طویل فہرست بنے گی، جس کا جواب امریکہ، اس کے اتحادیوں اور عالمی عدالتِ انصاف کے پاس کچھ نہ ہوگا۔ اس لیے جنیوا میں اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے چینی سفیر نے مطالبہ کیا ہے کہ افغانستان میں تعیناتی کے دوران امریکہ اور اس کی اتحادی افواج کی جانب سے انسانی حقوق کی پامالی کا احتساب کیا جائے۔ ان بیس برسوں کے دوران امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا کی افواج کے بارہ میں کئی شکایات آئی ہیں، جن کی شفاف تحقیقات انصاف کا تقاضا ہیں۔
بہرحال طالبان کے خلاف کئی سال تک امریکہ اور اس کے اتحادی جنگ کرتے رہے، اس کے بعد امریکہ نے اپنی کٹھ پتلیوں کے ذریعہ اپنی ڈھپ کی ایک حکومت تشکیل دی، جس کا صدر پہلے حامد کرزئی کو بنایا گیا اور اس کے بعد اشرف غنی کو صدر بنانے سمیت امریکی ہمنواؤں کو حکومت میں شامل کیا گیا۔ یہ بظاہر تو حکومت میں تھے، لیکن درحقیقت امریکا اوران کے اتحادیوں کے اشارۂ ابرو کے سامنے طالبان مجاہدین کے خلاف ناچتے رہے۔
اخبارات کی اطلاعات کے مطابق امریکہ نے اپنی قوم کے ٹیکسوں سے جمع شدہ تین کھرب ڈالر اس افغان جنگ میں برباد کیے، افغانستان کو اپنی گرفت میں رکھنے کے لیے امریکہ نے ۳؍ لاکھ افغان باشندوں پر مشتمل ایک فوج بھی بنائی، جس کو ٹریننگ دی، اسلحہ دیا، تنخواہیں دیں اور تقریباً اسی لاکھ ڈالر سے زیادہ اس فوج بنانے پر خرچ کیا اور اس کے ساتھ ساتھ امریکہ نے افغان قوم اور پاکستان کے خلاف بھارت کو بھی اپنا پارٹنر بنالیا۔ بھارت کو ہلہ شیری دی، اس نے بھی ۳ ؍ارب ڈالر سے زیادہ افغانستان میں سرمایہ کاری کی، افغان فوج کو ہیلی کاپٹر دیئے، اُن کے ڈیم بنانے شروع کیے، افغانستان کے ہر بڑے شہر میں قونصل خانے تعمیر کیے، اس میں لائبریریاں بنائیں اور ان میں کتابوں کی صورت میں ایسا مواد رکھا جو پاکستان دشمنی پر مشتمل تھا، ان قونصل خانوں میں ان کے وہ ایجنٹ اور دہشت گرد پناہ لیتے اور پروان چڑھتے تھے، جو پاکستان میں دہشت گردی کیا کرتے تھے۔ اسی طرح اشرف غنی حکومت نے ہر اُس تنظیم اور جتھے کو اپنے ہاں رہنے کو ٹھکانہ دیا، جو پاکستان میں دہشت گردی کے لیے موزوں ہوتا۔ چونکہ پاکستان وافغانستان پڑوسی ملک ہونے کے علاوہ دونوں ملکوں کے عوام کے آپس میں صدیوں پرانے برادرانہ مذہبی، لسانی، تجارتی، تہذیبی، اور ثقافتی تعلقات تھے، جو اس قدر مضبوط چلے آرہے تھے کہ دونوں ملکوں کی سرحدیں برائے نام تھیں، اس کے نتیجے میں چالیس لاکھ افغان پناہ گزین پاکستان آگئے، جس کی بڑی تعداد آج بھی یہاں موجود ہے۔ اس جنگ میں سب سے بھاری قیمت پاکستان کو دہشت گردی کی صورت میں ادا کرنی پڑی۔ ستر ہزار سے زائد پاکستانی اس دہشت گردی میں شہید ہوئے، اربوں ڈالر کا پاکستان کا معاشی نقصان ہوا،ہماری پاکستانی افواج اور فورسز کے کئی سپوت اس دہشت گردی میں شہید کیے گئے، تاہم پاکستان نے یہ سب کچھ برداشت کیا اور ہمیشہ اس موقف کا اعادہ کیا کہ اپنے معاملات کا حل خود افغانوں کو تلاش کرنا ہے۔
بہرحال امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے جب اپنے طور پر انتظامات کرلیے کہ طالبان سے لڑنے کے لیے ہم نے تین لاکھ فوج کھڑی کردی، اسلحہ سے اُن کو لیس کردیا، بھارت کو اپنے لے پالک کی طرح یہاں کا چودھری بنادیا، اور یہ افغان قوم کو لڑاتا رہے گا، یہاں خانہ جنگی جاری رہے گی، یہاں کبھی امن قائم نہیں ہوگا، اسی لیے طالبان کبھی بھی یہاں اپنی حکومت نہیں بناپائیں گے، اس نے اپنے تئیں یہ سب انتظامات کرنے کے بعد اپنے حمایتیوں کے ذریعہ طالبان کو پہلے مذاکرات کے لیے آمادہ کیا۔ ظاہر ہے جنگ کا خاتمہ اور تصفیہ تو مذاکرات کی میز پر ہی ہوتا ہے، اسی لیے طالبان مجاہدین بھی اس کے لیے تیار ہوگئے، گویاطالبان کی فتح اور واپسی کی بنیاد فروری ۲۰۲۰ء میں ہونے والے امریکہ اور امارتِ اسلامیہ افغانستان کے مابین معاہدے سے ہوگئی تھی، اور امریکی قبضہ کا تقریباً خاتمہ ۵؍ جولائی ۲۰۲۱ء کو بگرام کے فوجی اڈے سے امریکی فوجوں کے اچانک انخلا سے ہوگیا تھا، اور اس کے ساتھ ہی کرائے کی افغان فوج دھڑام سے طالبان مجاہدین کے سامنے گرتی چلی گئی، اور یوں نو دن کے اندر اندر کابل فتح ہوگیا۔
طالبان نے بیس سال تک اسلام اور اپنے ملکی دفاع میں امریکہ کے خلاف جہاد کیا اور طالبان کی فتح میں اللہ تعالیٰ نے اپنی مدد ونصرت کا اسی طرح اظہار کیا، جس طرح حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کی جماعت صحابہ کرامؓ کے ساتھ مددونصرت کا معاملہ کیا تھا، اور طالبان نے بھی اپنی فتح ونصرت میں اپنی قوم اور اپنے مخالفین کے ساتھ وہی برتاؤ کیا جو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرامؓ نے فتحِ مکہ کے وقت کیا تھا۔
فتحِ مکہ کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے اعلان ہوا کہ جو آدمی ابوسفیان کے گھر میں داخل ہوگیا، اسے امان ہے، جو اپنے گھر کا دروازہ بند رکھے، اس کو امان ہے، جو بیت اللہ میں داخل ہوگیا اس کو امان ہے، ’’لَاتَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ‘‘ ... ’’آج کسی پر کوئی ملامت نہیں۔‘‘ اسی طرح طالبان نے بھی کہا کہ آج ہم نے سب کو معاف کیا ہے، جس نے بھی ہمارے ساتھ جو کیا ہم نے سب کچھ معاف کردیا۔ طالبان کی اس وسیع القلبی سے دنیا دَنگ ہے۔
طالبان کا یہ عہد اور اعلان کرنا کہ افغان سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہوگی، ہمارے جانی دشمنوں سمیت سب کے لیے عام معافی ہے، خواتین کو شرعی حقوق دیں گے، انسانی حقوق کی پاسداری کی جائے گی اور میڈیا آزادہوگا، افغان عمائدین اور تمام جماعتوں کو ساتھ لے کر چلیں گے، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ان شاء اللہ! طالبان بہترین حکمران ثابت ہوں گے اور یہ چیزیں افغانستان میں مضبوط اسلامی حکومت تشکیل دینے میں بہت ہی زیادہ معاون ومددگار ثابت ہوںگی۔ طالبان نے اعلان کیا ہے کہ ملک کی سرحدیں آنے جانے والوں کے لیے کھلی ہوئی ہیں اور افغانوں کے ملک سے باہر جانے پر کوئی پابندی نہیں ہے، انہوں نے یہ بھی کہا کہ تعلیم یافتہ ، ہنرمند اور سرکاری محکموں میں کام کرنے والے افغان باشندے ملک سے باہر نہ جائیں، یہاں رہ کر ملک کو مستحکم، مضبوط بنانے اور ملک کی بہتری کے لیے ہمارے ساتھ کام کریں اور ہمارے ساتھ مل جل کر رہیں۔
۱۵؍ اگست ۲۰۲۱ء عالمِ اسلام کے لیے فتحِ مبین کے طور پر صدیوں تک یاد رکھا جائے گا کہ عہدِ حاضر کی تنہا سپرپاور امریکا اور اس کے ۴۵ ؍ نیٹو اتحادی اِن طالبان مجاہدین کے سامنے نہ صرف یہ کہ شکست وریخت سے دوچار ہوئے، بلکہ کروڑوں اور اربوں ڈالر کا اسلحہ بھی یہاں چھوڑ کر بھاگ گئے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کچھ روز قبل تک یہ دعویٰ کرتے رہے کہ کابل پر طالبان کا قبضہ ناممکن ہے، ان کا کہنا تھا کہ امریکی تربیت یافتہ فورسز کی تعداد تین لاکھ سے زائد ہے ، جو جدید اسلحہ سے لیس ہے، جبکہ ان کے مقابلہ میں طالبان کی تعداد صرف پچھتر ہزار ہے، جب کہ سرکاری افواج کو امریکی فضائیہ کی مدد حاصل ہے، تاہم چند دنوں میں طالبان نے امریکی صدر کا یہ دعویٰ باطل ثابت کردیا اور امریکہ کے عالمی چودھراہٹ کے غبارۂ سپرپاور سے ہوا نکال دی۔
سابق امریکی صدر ٹرمپ نے موجودہ امریکی صدر جوبائیڈن پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ: امریکیوں اور اس کے اتحادیوں کو تاریخ کی سب سے بڑی شکست سے دوچار ہونا پڑا ہے۔نیٹو اور یورپی یونین کے سربراہوں نے بھی اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ: امریکا اور نیٹو کو طالبان کے ہاتھوں تاریخی ہزیمت اُٹھانا پڑی ہے۔ برطانیہ اور جرمنی وغیرہ نے کھل کر کہا ہے کہ: امریکا کی پالیسیوں، دوحہ مذاکرات میں اس کے غلط فیصلوں اور افغانستان سے فوری انخلا کے باعث ہماری بیس سالہ محنت ضائع ہوگئی ہے اور طالبان پہلے سے زیادہ قوت کے ساتھ تختِ کابل پر براجمان ہوگئے ہیں۔
امریکی صدر جوبائیڈن نے افغانستان سے عجلت میں انخلا کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ: امریکا نے افغان فورسز کی تربیت کی، انہیں ہر قسم کا اسلحہ فراہم کیا، تنخواہیں دیں، لیکن افغان فورسز طالبان سے لڑنے سے ہچکچاتی ہیں تو امریکی فوج اُن کے لیے کیسے لڑسکتی ہے؟
دوسری جانب کابل پر طالبان مجاہدین کے قبضے سے بھارت میں پندرہ اگست یومِ آزادی کی خوشیاں سوگ میں بدل گئیں اور نئی دہلی کے ایوانوں اور ان کے میڈیا میں صفِ ماتم بچھی ہوئی ہے، اسی لیے ان دنوں بھارتی ذرائع ابلاغ اور میڈیا طالبان دشمنی میں مغربی میڈیا سے بھی دو ہاتھ آگے نظر آرہا ہے، اس کی دو بڑی وجوہات ہیں: ایک یہ کہ طالبان کی فتح سے افغانستان میں بھارت کے ۳؍ارب ڈالر سے زائد مالیت کی سرمایہ کاری ضائع ہوگئی ہے اور دوسرا یہ کہ افغان سرزمین پر بنے بھارتی قونصل خانے جو سفارتی آڑ میں پاکستان کے خلاف سرگرمِ عمل تھے، اُن پر تالے لگ جائیں گے۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی مددونصرت تھی کہ ۱۵؍ اگست جو بھارت کا یومِ آزادی ہے، اسی دن طالبان نے کابل کو ایک گولی چلائے بغیر فتح کیا، جو بھارت کے لیے یومِ آزادی کے بجائے یومِ بربادی ثابت ہوا۔
طالبان کی فتح کو آج پندرہ دن سے زائد کا عرصہ ہوچکا ہے، لیکن آج تک بھارتی میڈیا، امریکی ٹاؤٹ، عقل پرست گروہ، دین بیزار طبقہ اور لبرلز‘ طالبان کی اس فتح اور کامیابی کو ماننے اور ہضم کرنے کو تیار نہیں اور یہ کہتے سنے جاتے ہیں کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ٹیکنالوجی سے لیس امریکا اور اس کے اتحادی نیٹو طالبان سے شکست کھاجائیں؟ ایسے لوگوں سے سوال کیا جائے کہ بتائیے! جب مشرکینِ مکہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو شہید کرنے کا منصوبہ بنایا تو اُن کے حصار سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کس نے نکالا؟ غارِ ثور میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی حفاظت کس نے کی؟ ہجرت کے موقع پر مشرکین کا جاسوس جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچ چکا، اس وقت اس سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کس نے بچایا؟ بدر میں ایک ہزار مسلح جنگ جوؤں کے مقابلہ میں نہتے ۳۱۳ صحابہ رضی اللہ عنہم کو کس نے فتح دی؟ غزوۂ اُحد، غزوۂ احزاب اور فتح مکہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو کس نے اور کیسے فاتح بنایا؟ جس طرح یہ فتوحات اللہ تعالیٰ پر ایمان ویقین، توکل واعتماد اور نصرتِ الٰہی کا نتیجہ تھیں، اسی طرح طالبان کی یہ فتح کہ جنہوں نے بیس سال تک قربانیاں دینے کے بعد صرف نو دن کے اندر اندر پورا افغانستان فتح کرلیا، یہ بھی اللہ تعالیٰ پر ایمان ویقین، توکل واعتماد اور نصرتِ الٰہی کا مظہراور واضح دلیل ہے، جب کہ امریکا طالبان کی فتح ۶ ماہ اور پھر تین ماہ بعد دیکھ رہا تھا، اس لیے امریکہ نے اگرچہ رات کی تاریکی میں اپنے اتحادیوں کو بتائے بغیر بگرام ائیربیس خالی کردیا اور ۳؍ لاکھ افغانی فوج جو اُس نے بنائی تھی، اس پر اعتماد کرتے ہوئے بڑے آرام سے وہ اپنی فوج اور اپنے ایجنٹوں کو نکال رہا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی مدد اور نصرت کی بناپر طالبان کا رعب افغان کٹھ پتلی صدر اشرف غنی اور اس کی فوج پر ایسا پڑا کہ اشرف غنی ڈالروں کی بڑی کھیپ اپنے ساتھ لے کر فرار ہوگیا اور امریکہ کی تربیت یافتہ افغان فوج طالبان کے سامنے ڈھیر ہوگئی۔ اور امریکہ اور اس کی اتحادی افواج کو انخلا میں مشکلات کے باعث طالبان سے ۳۱؍ اگست ۲۰۲۱ء جو ڈیڈلائن تھی، اس میں توسیع کی بھیک مانگنی پڑی، جس پر طالبان نے صاف انکار کردیا اور بالآخر پاکستان کی منت سماجت کرکے ان سے انخلا میں مدد کی درخواست کی، جس کو پاکستان نے قبول کرلیا۔ یہ ہے اللہ تعالیٰ کے کلمہ کو بلند کرنے والوں کے ساتھ مددِ الٰہی اور اللہ تعالیٰ کی نصرت کا مظہر اور اعجاز۔
الحمد للہ! آج ہر جگہ کے مسلمان طالبان کی اس فتح اور نصرت پر خوش ہیں، لیکن امریکہ اور مغرب سے مرعوب میڈیا اینکر اور مغربی تہذیب کے دل دادہ افراد طالبان کی اس فتح اور کامیابی کو ہضم نہیں کرپا رہے، اس لیے مستقبل کے اندیشوں کو بنیاد بناکر، الیکٹرونک میڈیا اور سوشل میڈیا پر اُن کی اس فتح اور کامیابی کو دھندلایا جارہا ہے۔ جب کہ اس کے برعکس غیرجانب دار مبصرین اور اہلِ بصیرت حضرات کا کہنا یہ ہے کہ وقت سے پہلے طالبان پر شک وشبہ اور بداعتمادی کا ظہار نہ کریں، بلکہ ان کو حکومت بنانے دیں اور معاملات کو ان کے کنٹرول میں آنے دیں، پھر دیکھا جائے گا کہ وہ اپنے ان اعلانات اور پالیسیوں پر عمل کرتے ہیں یا نہیں؟ جیسا کہ برطانیہ کے چیف آف آرمی اسٹاف نے کہا کہ: طالبان کو وقت دیں، پھر دیکھیں کہ وہ اپنے دعووں پر عمل کرتے ہیں یا نہیں؟ حضرت مولانا زاہد الراشدی صاحب مدظلہ نے بھی فرمایا کہ: طالبان کو مشورے مت دیں، جنہوں نے بیس سال تک امریکہ کے خلاف جہاد کیا ہے، وہ اپنی ترجیحات اور نظامِ مملکت (کس طرح ہونا چاہیے، وہ) اس کو زیادہ جانتے ہیں۔ وزیراعظم جناب عمران خان نے بھی دنیا کے تمام ممالک سے اپیل کی ہے کہ وہ طالبان کا ساتھ دیں، ان پر تنقید کرنے کی بجائے ان کو اپنا نظام وضع کرنے دیں، وہ اپنے کیے گئے وعدوں کے خلاف جب کریں گے تب دیکھا جائے گا۔
بہرحال اس تاریخی فتح پر ادارہ بینات کے ذمہ داران تمام طالبان مجاہدینِ افغانستان کو مبارک باد دیتے ہیں اور ان کے لیے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو نظامِ اسلام نافذ کرنے کی توفیق عطا فرمائے، بہترین حکمرانی کرنے کے لیے انہیں قبول فرمائے، ان کی تمام مشکلات اور رکاوٹوں کو دور فرمائے، اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام جاری وساری کرنے کی انہیں توفیق عطا فرمائے، امارتِ اسلامیہ افغانستان کے حصول میں شہادت قبول کرنے والے مجاہدین کو جنت الفردوس میں اعلیٰ جگہ عطا فرمائے اور ان کی روحوں کو امارتِ اسلامیہ افغانستان کے حصول پر خوش وخرم فرمائے، آمین بجاہ سید المرسلین۔
وصلی اللہ تعالٰی علٰی خیر خلقہٖ سیدنا محمد و علٰی آلہٖ و صحبہٖ أجمعین