بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 ربیع الثانی 1446ھ 10 اکتوبر 2024 ء

بینات

 
 

پاکستان میں دہشت گردی کی تازہ لہر

پاکستان میں دہشت گردی کی تازہ لہر

جمعیت علماء اسلام کے مرکزی راہنما مولانا حافظ حمد اللہ صاحب حفظِ قرآن کے بچوں کی دستار بندی کی تقریب میں شرکت کی غرض سے مستونگ کے قریب سے گزررہے تھے تو ان پر بم دھماکا کیا گیا، جس سے گاڑی میں موجود چاروں افراد زخمی ہوگئے، گاڑی بالکل تباہ ہوگئی اور ایک کوسٹر جو قریب سے گزر رہی تھی، وہ بھی تباہ ہوگئی اور اس کے کئی سوار بھی زخمی ہوئے۔ پھر کچھ دن کے بعد مدرسہ عربیہ اسلامیہ اسکاؤٹ کالونی کراچی کے سامنے بیٹھے ایک باریش دین دار شخص کو شہید کیا گیا، اور ایک گولی مدرسہ کے چوکیدار کو بھی جالگی۔اس کے بعد کراچی کے معروف عالمِ دین اور اہلِ حدیث مکتبِ فکر کے راہنما مولانا ضیاء الرحمٰن مدنی  ؒمدیر جامعہ ابی بکر کو شہید کیا گیا۔ پھر مستونگ میں ۱۲؍ ربیع الاول کے جلوس پر خودکش حملہ کیا گیا، جس میں ۵۹ افراد شہید اور ۶۵ زخمی ہوگئے۔ اسی طرح ہنگو میں اسی دن جمعہ نماز کے موقع پر خودکش حملہ کیا گیا، جس سے ۵؍نمازی شہید اور ۱۲ ؍سے زائد افراد زخمی ہوگئے۔ اسی طرح کچھ دن بعد مدرسہ تعلیم الاسلام گلشنِ عمرؓ سہراب گوٹھ کراچی کے پاس مین روڈ پر فائرنگ سے جامع مسجد ابوبکر پورٹ قاسم کے نائب امام مولانا قیصر فاروق شہید اور جامعہ امام محمد کے طالب علم عمر فاروق زخمی ہوگئے۔ 
گویا بلاتفریق تمام مکاتبِ فکر کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا جارہا ہے، جو بہت افسوسناک اور لمحۂ فکریہ ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام مکاتبِ فکر دہشت گردی کے خلاف متحد ہوکر اس کی روک تھام کے لیے کردار ادا کریں۔ حکومت سے بھی مطالبہ ہے کہ وہ اس پر غوروفکر کرے کہ صرف دینی اور مذہبی حضرات ہی کیوں دہشت گردی کا نشانہ بنائے جارہے ہیں؟ اور ساتھ ساتھ اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے ان دہشت گردوں کو گرفتار کرے، ان کو عبرت ناک سزا دے اور تمام مذہبی قائدین اور راہنماؤں کی حفاظت کا مناسب اقدام کرے۔ 
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین