بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

6 ربیع الاول 1446ھ 11 ستمبر 2024 ء

بینات

 
 

قادیانیوں کو آئین اور قانون کا پابند بنایا جائے !

قادیانیوں کو آئین اور قانون کا پابند بنایا جائے !

الحمد للہ وسلامٌ علٰی عبادہ الذین اصطفٰی

ایک تجزیہ کار، کہنہ مشق صحافی اور قادیانیوں کے غیر مسلم اقلیت قرار دیے جانے پر اپنے ڈائجسٹ اور رسالے کا خصوصی نمبر شائع کرنے والے جناب مجیب الرحمٰن شامی صاحب نے دنیا نیوز کے پروگرام ’’نقطۂ نظر‘‘ میں ۲۴؍جون ۲۰۲۴ء کو قادیانیوں کی فرضی مظلومیت کا پرچار کرتے ہوئے چند ایسی نامناسب باتیں کی ہیں، جو پاکستانی دستور اور قانون کے خلاف ہونے کے ساتھ ساتھ اخلاق ، تہذیب ، متانت اور سنجیدگی سے کوسوں دور تھیں ۔ یہ باتیں سن کر یقین نہیں آتا کہ یہ سب باتیں کسی ایسے شخص کی ہیں جس کا ماضی قادیانیت کی آگاہی سے جڑا چلا آرہا ہے، بلکہ یوں لگا کہ یہ باتیں شاید کسی ایسے عامی آدمی کی ہیں جو قادیانیت سے بہت زیادہ متأثر یا ان کے دامِ فریب کا اسیر ہے۔ آپ بھی یہ باتیں پڑھیں اور فیصلہ کریں کہ کیا کوئی مسلمان ‘ اسلام کے بنیادی عقائد کو جاننے والا، پاکستانی آئین اور قانون سے واقف آدمی  یہ گفتگو کر سکتا ہے ؟!
شامی صاحب نے کہا : ’’ایک اقلیت تو ایسی ہے کہ ہم اس کا نام ہی نہیں لے سکتے جو اپنے آپ کو احمدی کہتے ہیں اور ہم انہیں قادیانی کہتے ہیں۔ اُن کی زندگی اجیرن کی ہوئی ہے ۔ آپ کو قربانی نہیں کرنے دیں گے، آپ کو نماز نہیں پڑھنے دیں گے، آپ کے بکرے جو ہیں ہم اُٹھا کے لے جائیں گے، آپ نے ۵۰ ہزار کا خریدا ہے، ہم اسے ۲۵ ہزار کا واپس لے لیں گے ۔ یہ کیا تماشا ہے؟ اور آپ کو عبادت گاہ نہیں بنانے دیں گے ۔ او بھائی! آپ بیٹھیں۔ ہمارے حافظ نعیم الرحمٰن صاحب، حضرت مفتی فضل الرحمٰن صاحب اور منیب الرحمٰن صاحب اور تقی عثمانی صاحب! یہ بیٹھیں۔ خدا خوفی کریں۔ ان کی بھی حدود و قیود طے کر دیں، اس طرح نہ کریں کہ یہ پاکستان کو ہندوستان بنادیں۔ ہندویاتروں والے یہاں دندناتے پھریں اور آپ چین سے بیٹھے رہیں۔ ہر شخص جو پاکستان کا شہری ہے خواہ کسی مذہب سے تعلق رکھتا ہو، کسی نسل سے تعلق رکھتا ہو، کسی علاقے کا رہنے والا ہو، اس کی جان، اس کے مال، اس کی آبرو کی حفاظت حکومتِ پاکستان کی اور ریاستِ پاکستان کی اوّلین ذمہ داری ہے۔ یہ جو قادیانی حضرات ہیں ان کے ساتھ بھی بیٹھیں، ان کی باتیں سنیں، ان کو آپ نے دستوری طور پر ایک اقلیت قرار دیا ہے، اور غیر مسلم قرار دیا ہے، ان کی بات سنیں ان کے اپنے شہری حقوق ہیں، ان کا احترام کریں۔ تو اس لیے اب وقت آگیا ہے کہ ہم یہ خوف کی چادر جو ہے اس کو اُتار پھینکیں اور جو بات حقیقت ہے اس کو بیان کریں اور اس سے نہ ڈریں، نہ ہجوم سے ڈریں اور نہ بے لگام مذہبی رہنماؤںسے ڈریں۔‎‘‘
اس بیان کے آنے کے بعد کئی علمائے کرام نے اس پر ردِّ عمل دیا اور ایک وفدنے باقاعدہ جا کر شامی صاحب سے ملاقات کر کے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ،اس پر انہوں نے کچھ ملے جلے انداز اور مبہم الفاظ سے وضاحت کی ، اس پر حضرت مولانا اللہ وسایا صاحب دامت برکاتہم نے تفصیل سے مضمون لکھا اور وہ مضمون انھوں نے شامی صاحب کو بھجوایا ، جس کے بعد انہوں نے درج ذیل وضاحت اور بیان دیا ہے:
’’ قادیانیوں کے بارہ میں اپنی پچھلی گفتگو میں ہم نے کہا تھا کہ ان کے حقوق متعین ہونے چاہئیں تو کئی علمائے کرام نے مجھ سے رابطہ کیا ، جب میں نے انہیں وضاحت دی تو سب نے اطمینان کا اظہار کیا ۔ جناب مولانا اللہ وسایا صاحب نے ایک مضمون لکھ کر بھیجا ہے، تاکہ میں اس سے استفادہ کر سکوں ۔ علمائے کرام کا کہنا ہے کہ قادیا نی پہلے خود کو غیر مسلم مانیں، ۱۹۸۴ کے امتناعِ قادیانیت آرڈی نینس ، جو بہت مضبوط قانون ہے ، کے مطابق اپنے معاملات چلائیں ، شعائرِ اسلام استعمال نہ کریں ، مسلمانوں کے ساتھ خود کو شامل نہ کریں ، ہندو ، سکھ ، عیسائی ، وغیرہ غیرمسلموں کی طرح اپنا الگ تشخص قائم کریں تو ہمارا اُن سے کوئی جھگڑا نہیں ہے، لیکن اگر یہ اسلام کا لبادہ اوڑھ کر آئیں گے تو بد امنی ہوگی۔ یہی موقف قانون دان حضرات نے بھی واضح کیا، تو میں ان علمائے کرام ، اُمتِ مسلمہ کے عوام اور جمہور کے ساتھ ہوں اور میرا بھی یہی موقف ہے ۔ ‘‘
شامی صاحب نے اگر چہ اپنے پہلے والے موقف سے رجوع کیا ہے اور اپنے کو علماء کے ساتھ کھڑا ہونے کا کہا ہے ، لیکن ہم اتنا عرض کریں گے کہ شامی صاحب ! آپ کی مذکورہ بالا پہلی گفتگو بہت ہی اشتعال انگیز، توہین آمیز اور عامیانہ طرزِ تخاطب لیے ہوئے تھی، جس کے تدارک کے لیے آپ کی یہ وضاحت ناکافی محسوس ہوتی ہے، خصوصاً اتنے نامورعلمائے کرام کو تضحیک آمیز الفاظ اور اندازسے مخاطب بنانا، ان کو خدا خوفی کا درس دینا، اور یہ کہنا کہ: ’’ ایک اقلیت جس کا نام نہیں لے سکتے ۔ ‘‘، ’’ ان کی زندگی اجیرن کی ہوئی ہے ۔ ‘‘ ، ’’۵۰ہزار کا بکرا ۲۵ ہزار میں ان سے لے جانا ۔ ‘‘، ’’ اب وقت آگیا ہے کہ ہم خوف کی چادر اُتار پھینکیں ۔ ‘‘، ’’ جو بات حقیقت ہے اس کو بیان کریں اور اس سے نہ ڈریں ، نہ ہجوم سے ڈریں ، اور نہ بے لگام مذہبی راہنماؤں سے ڈریں ۔‘‘ آپ خود ہی غور فرمائیں کہ کیا آپ کی اس وضاحت سے ان تمام باتوں کا اِزالہ اور تلافی ہوگئی ہے ؟
اس کے ساتھ ساتھ محسوس یوں ہوتا ہے کہ محترم موصوف اتنا غصہ میں ہیں کہ انہیں پتا ہی نہیں چلا کہ جو بات میں خود کہہ رہا ہوں ، اسی کی تردید بھی کر رہا ہوں۔ پہلے کہا کہ ہم ان کا نام نہیں لے سکتے ، حالانکہ نیشنل ٹی وی پر خود ان کا نام بھی لے رہے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ اگر نام نہیں لے سکتے تو آپ نے کیسے لیا؟ اور جب آپ نے خود نام لے لیا تو آپ کی اپنی بات کی تردید ہو گئی اور اس طرزِ بیان سے یہ بدگمانی جنم لیتی ہے کہ یہ جملہ قادیانیوں ہی کا دیا ہوا ہے ، جسے میڈیا میں دہرایا گیا ہے۔ شامی صاحب بھی خوب جانتے ہیں کہ قادیانی اپنے کو مسلمان اور مسلمانوں کو کافر کہتے ہیں ، حالانکہ دنیا کے تمام مذاہب والے مسلمانوں کو مسلمان ہی کہتے ہیں ، یہ صرف قادیانی ہی ہیں جو حضور اکرم  صلی اللہ علیہ وسلم  کے ماننے والے مسلمانوں کو کافر اور مرزا قادیانی کے ماننے والے کافروں کو مسلمان کہتے ہیں ۔اسی طرح یہ جملہ : ’’ ان کی زندگی اجیرن کی ہوئی ہے ۔ ‘‘ بھی قادیانیوں نے اپنی جھوٹی مظلومیت کا پرچار کرنے کے لیے گھڑا ہوا ہے ، جس کو نیشنل میڈیا پر دہرایا جارہا ہے ، جب کہ حالات ، واقعات اور مشاہدات اس کی نفی کر رہے ہیں ، بلکہ اب تک کا تجربہ شاہد ہے کہ اس قسم کے بیانات وتأثرات صرف بیرونِ ملک سے تعاون اور مراعات لینے کا ایک بہانہ اور پاکستان کو بدنام کرنے کا ذریعہ ہوتے ہیں ، اس کے علاوہ کچھ نہیں ۔
  آپ کا یہ کہنا کہ ’’قربانی نہیں کرنے دیں گے، نماز نہیں پڑھنے دیں گے۔ ‘‘ محترم ! آپ بھی جانتے ہیں کہ قربانی، نماز، مسجد؛ یہ سب شعائر اللہ میں آتے ہیں، اور اس کا استعمال قادیانیوں کے لیے ممنوع ہے ، جسے آپ نے بھی اپنے وضاحتی بیان میں کہہ دیا ہے۔ سپریم کورٹ کے بقول : ’’قادیانیت نام ہی دھوکے کا ہے۔‘‘
 کلمہ، نماز، روزہ، حج، قربانی، قرآن، حدیث، اہلِ بیت اطہار ، صحابہ کرام ، ازواجِ مطہرات ، اُم المومنین ، ہر ایک عنوان سے قادیانی جب دھوکا دیتے ہیں تو مسلمانوں کی ان دھوکا بازوں کی دھوکا بازی پر چیخ و پکار اور دہائی دینا اور حکومت و انتظامیہ کو کہنا کہ ان کو قانون کا پابند بنائیں اور سادہ لوح مسلمانوں کو ان کے دھوکے سے بچائیں، تو اس پر کہنا کہ : ’’مسلمانوں نے ان کی زندگی اجیرن کی ہوئی ہے۔‘‘ کتنا بڑا ظلم اور ناانصافی ہے! بلکہ ہر عقل مند اور باشعور انسان اُلٹا یہ کہے گا کہ قادیانیوں نے ہی مسلمانوں کی زندگی اجیرن کی ہوئی ہے۔ باقی یہ کہنا کہ ’’بکرے اُٹھا کر لے جائیں گے۔‘‘ یہ محض قادیانیوں کا غلط پروپیگنڈہ، سازش اور شرارت ہے یا جناب شامی صاحب کی سخن سازی ہے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں ۔
یہ کہنا کہ :’’آپ کو عبادت گاہیں نہیں بنانے دیں گے۔‘‘ جواباً عرض ہے کہ محترم ! مسلمانوں کی مساجد اور اُن کی ہیئت وطرز پر قادیانیوں کو اپنی عبادت گاہیں بنانے کی یہ پابندی قانون نے لگائی ہے، آئین نے لگائی ہے، تو آپ یہ الزام علماء اور مسلمانوں پر نہ لگائیں۔ پاکستان کے آئین اور قانون میں جس طرح تمام اقلیتوں کو اپنی عبادت گاہیں بنانے کی اجازت ہے، اسی طرح قادیانیوں کو بھی اجازت ہے، لیکن اگر قادیانی اپنے کفر کو اسلام اور اسلام کو کفر کہیں، اپنی عبادت گاہ کو مسجد کی ہیئت و طرز پر بنائیں اور اس کو مسجد کا نام دیں تو انھیں ایسا نہیں کرنے دیا جائے گا، کیونکہ یہ اسلامی شعائر ، پاکستان کے قانون اور سپریم کورٹ کے فیصلوں کے منافی ہے ۔
 یہ کہنا کہ :’’ ان کی حدود و قیود طے کریں۔‘‘ جواب یہ ہے کہ قادیانیوں کی حدود و قیود تو پاکستان کی قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر طے کر دی ہیں ۔ ان حدود و قیود کا قادیانیوں کو پابند رکھنے کے لیے ہی امتناعِ قادیانیت آرڈی نینس ۲۶ ؍اپریل ۱۹۸۴ ء جاری کیا گیا ، جس کی رو سے قادیانی تمام شعائرِ اسلام استعمال نہیں کر سکتے ۔ قانون نے ایک بار جب یہ بات طے کردی ہے کہ وہ غیر مسلم ہیںاور اسلامی شعائر استعمال نہیں کر سکتے تو اب قادیانی خود کو ان حدود و قیود کا پابند بنائیں، آئین و قانون کو تسلیم کریں۔ مسلمانوں اور قادیانیوں کا موقف سن کر ہی عدالتوں نے فیصلہ دیا ہے۔ ان پر عمل کرنا ایک وفادار اور محبِّ وطن شہری کا فرض ہے ۔ قادیانی آج ہی اپنے کو غیر مسلم اقلیت رجسٹرڈ کرائیں اور دوسری اقلیتوں کی طرح اپنے حقوق حاصل کریں تو ان سے کوئی جھگڑا نہیں ۔ 
 اصل بات یہ ہے کہ ایک فضا بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ قادیانیوں کو کسی نہ کسی طرح کوئی ریلیف دلایا جائے ، بلکہ ان کا جو غیر مسلم والا اسٹیٹس ہے ، اس کو یا تو بالکلیہ ختم کیا جائے یا اس طرح کر دیا جائے کہ اس کے ہونے کے باوجود نہ ہونے کے برابر ہو جائے، جیسا کہ آج سے مہینوں پہلے ایک آواز لگائی گئی کہ قادیانیت کے بارہ میں قانون میں ابہام ہے۔ قادیانیوں کے متعلق سپریم کورٹ جانا چاہیے۔ سپریم کورٹ سے ایک کیس کا متنازع فیصلہ آنا، اس کی نظر ثانی کی سماعت کا مکمل ہوجانا اور فیصلے میں تاخیر کا ہونا، ایم کیو ایم کے ایک سینیٹر جناب سبزواری صاحب کا سینیٹ میں قادیانی موقف کی ترجمانی کرنا، سندھ حکومت کا قادیانیوں کے متعلق آئی جی کو حکم کرنا، امریکا کا قادیانیوں کی حمایت میں بولنا، وفاقی وزارتِ داخلہ کا مبینہ طور پر عقیدۂ ختمِ نبوت کی خدمات سرانجام دینے والوں کی فہرستیں تیار کرانے کا حکم جاری کرنا، غامدی ذریت کا قادیانی حمایت میں ہلکان ہونا، اور  جناب شامی صاحب کا دنیا نیوز چینل پر قادیانی موقف کی وکالت کرنا اور کونوں کھدروں سے قادیانیوں کی بے جا حمایت اور فرضی مظلومیت کی جعلی کہانیوں کی بھر مار، یہ سب کچھ بلا وجہ نہیں!
جناب مجیب الرحمٰن شامی صاحب ہوں یا کوئی بھی باشعور یا بے شعور مسلمان، اسے قادیانیت کی حمایت وہمدردی سے زیادہ اپنی آخرت اور رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم  کے لیے فکرمند ہونا چاہیے۔ اسی طرح ہم قادیانیوں سے بھی کہیں گے کہ وہ پاکستانی آئین اور قانون کا اپنے آپ کو پابند بنائیں، اپنے آپ کو اقلیت تسلیم کریں ، خود بھی قانون شکنی سے بچیں اور پاکستان کو بھی خوشحالی کے راستے پر چلنے دیں۔ اِس میں سب کا بھلا ہے۔

وصلی اللہ تعالٰی علٰی خیر خلقہٖ سیدنا محمد و علٰی آلہٖ و صحبہٖ أجمعین
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین