بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 رجب 1446ھ 20 جنوری 2025 ء

بینات

 
 

عمرہ سے واپسی پر زمزم میں عام پانی ملا کر لوگوں کو دینا 


عمرہ سے واپسی پر زمزم میں عام پانی ملا کر لوگوں کو دینا 

سوال

کیا عمرہ سے واپسی پر زمزم میں عام پانی ملا کر لوگوں کو دینا جائز ہے؟

جواب

حج یا عمر ہ سے آنے کے بعد وہاں کے تبرکات، مثلاً: کھجور، زم زم اور دیگر اشیاء اپنے متعلقین میں تقسیم کرنا درست ہے۔ بہتر یہی ہے کہ رشتہ داروں اوردوستوں وغیرہ کو جب زم زم دے تو خالص دے، چاہے مقدار میں کم ہی کیوں نہ ہو، البتہ زمزم میں اگر عام پانی ملا دیا جائے تو اس کا ثبوت بھی ہے اور زم زم کی خاصیت یہ ہے کہ عام پانی میں ملانے سے زم زم کی برکات اس میں منتقل ہوجاتی ہیں، اس لیے حصولِ برکت کے لیے ایسا کرنا جائز ہے، لیکن اس کو خالص زم زم کہہ کر نہ دے۔
’’المحيط البرہاني للإمام برہان الدين ابن مازۃ‘‘- (۵/۴۳):
’’وفي ’’القدوري‘‘: إذا حلف علی قدر من ماء زمزم لايشرب منہ شيئاً وصبہ في ماء آخر حتی صار مغلوباً وشرب منہ يحنث عند محمد رحمہ اللہ؛ لما بيننا في ’’أصلہ‘‘، أن الشي لايصير مستہلکاً بجنسہ، ولو صبہ في بئر أو حوض عظيم وشرب منہ لايحنث؛ لأنہ لايدري لعل البئر تغور بما صب، والحوض إذا عظم ولعل ذلک القدر من الماء يختلط بالکل۔‘‘ 
’’بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع‘‘ - (۶ /۴۱۸):
’’حلف علی ماء من ماء زمزم لايشرب منہ شيئاً فصب عليہ ماء من غيرہ کثيراً حتی صار مغلوباً فشربہ يحنث لما ذکرنا من أصلہ أن الشيء لايصير مستہلکا بجنسہ ولو صبہ في بئر أو حوض عظيم لم يحنث، قال: لأني لا أدري لعل عيون البئر تغور بما صب فيہا ولاأدري لعل اليسير من الماء الذي صب في الحوض العظيم لم يختلط بہ کلہ۔‘‘
’’مرقاۃ المفاتيح شرح مشکاۃ المصابيح‘‘ - (۲/۶۰۲):
’’وعن طلق بن علي رضي اللہ عنہ، قال: خرجنا وفداً إلی رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم، فبايعناہ، وصلينا معہ، وأخبرناہ أن بأرضنا بيعۃ لنا، فاستوہبناہ من فضل طہورہ، فدعا بماء، فتوضأ وتمضمض، ثم صبہ لنا في إداوۃ. وأمرنا، فقال: (اخرجوا فإذا أتيتم أرضکم، فاکسروا بيعتکم، وانضحوا مکانہا بہٰذا الماء، واتخذوہا مسجدا)، قلنا: إن البلد بعيد، والحر شديد، والماء ينشف، فقال: (مدوہ من الماء، فإنہ لا يزيدہ إلا طيبا )، رواہ النسائي۔
و في الشرح : (فقال: مدوہ من الماء)، أي: زيدوا فضل ماء الوضوء من الماء غيرہ، وحاصلہ ما قالہ ابن حجر: أي صبوا عليہ ماء آخر (فإنہ لايزيدہ)، قال الطيبي: الضمير في ’’فإنہ‘‘ إما للماء الوارد أو المورود، أي: الوارد لا يزيد المورود الطيب ببرکتہ (إلا طيباً) : أو المورود الطيب لايزيد بالوارد إلا طيباً اہ۔
ولايخفی أن الأول بالسياق أقرب، وبنسبۃ الزيادۃ أنسب، وإن قال ابن حجر: إن عکسہ أولی إشارۃ إلی أن ما أصاب بدنہ عليہ السلام لايطرقہ تغير، بل ہو باق علی غايۃ کمالہ الذي حصل لہ بواسطۃ ملامستہ لتلک الأعضاء الشريفۃ، فکل ما مسہ أکسبہ طيباً اہـ۔
‘‘

فقط واللہ اعلم

فتویٰ نمبر : 144104200150                                               دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
 

تلاشں

شکریہ

آپ کا پیغام موصول ہوگیا ہے. ہم آپ سے جلد ہی رابطہ کرلیں گے

گزشتہ شمارہ جات

مضامین