کسی بھی زبان کی بقا اور الگ تشخص میں رسم الخط کا کردار بہت اہم ہے۔ ایک زبان کا رسم الخط اسے دوسری زبانوں سے ممتاز کرتا ہے۔ رسم الخط زبان بولنے والےاولین لوگوں کے دلی رجحانات کا بھی عکاس ہوتا ہے۔ اس کے ذریعے معلوم ہو جاتا ہے کہ زبان بولنے والے لوگ کس تہذیب اور فکر سے وابستگی رکھتے ہیں۔
اُردو زبان کا معاملہ یہ ہے کہ یہ برصغیر ہندو پاک میں بیرون سے آنے والے مختلف افراد کے اختلاط کے نتیجے میں الگ زبان کے طور پر وجود میں آئی ہے۔ اس میں علاقائی زبانوں کے ساتھ فارسی کا رنگ بہت گہرا ہے، کیونکہ فارسی آج سے تقریباً دو سو برس پہلے تک سرکاری زبان تھی اور یہ ایک واضح بات ہے کہ جس بھی زبان کو سرکاری سرپرستی حاصل ہو، اس کا اثر عوام تک نہ چاہتے ہوئے بھی پہنچتا ہے۔ پھر علماء کا اپنے اپنے حلقےپر اثر تھا، علماء فارسی میں تحریر و تصنیف بھی کرتے تھے، فارسی کتب زیرِ درس رہتی تھیں، لہٰذا ایک نئی تشکیل پانے والی زبان جس کا نام بعد میں اردو پڑنا تھا، اس میں فارسی الفاظ کی بکثرت شمولیت ناگزیر تھی۔ اس کے علاوہ ترکی زبان کا بھی اردو پر اثر پڑا، کیونکہ ترکی سے بھی افراد ہندوستان آئے اور بااثر مناصب پر فائز ہوئے۔ مزید برآں سلطنت ِعثمانیہ سے مسلمانانِ ہند کا دینی رشتہ بھی تھا۔ حرمین شریفین کی خدمت کا شرف عثمانی سلاطین کو حاصل تھا اور ترکیوں کو اپنے مختلف محاذوں پر مسلمانانِ ہند کی نظریاتی اور مالی مدد بھی فراہم ہوتی تھی۔ ان سب عوامل کے زیرِ اثر اردو پر ترکی زبان کا بھی اثر پڑا، حتیٰ کہ اردو کا نام ہی ترکی زبان سے لیا گیا۔
اردو پر عربی زبان کا بھی گہرا اثر پڑا ہے، عربی مسلمانانِ برصغیر کی دینی زبان ہے، مسلمانوں کے تمام مصادر ِشریعت عربی میں ہیں، لہٰذا بہت سی دینی اصطلاحات جیسے: دعا، تلاوت وغیرہ اردو میں بکثرت شامل ہیں۔ عربی کے بہت سے الفاظ بالکل اسی طرح یا کچھ ترمیم کے ساتھ اردو زبان کا بھی حصہ بن چکے ہیں، مثلاً: محبت، عداوت، قلم، کتاب، وغیرہ۔ فارسی عربی اور ترکی کے ساتھ اردو پر سنسکرت زبان کا بھی اثر ہے اور اب ہمارے عہد میں انگریزی کے الفاظ بھی اردو میں بکثرت شامل ہو چکے ہیں۔ انٹرنیٹ اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ترقی اور پھیلاؤ کے ساتھ اردو میں انگریزی الفاظ کی شمولیت کی مقدار زیادہ ہو گئی ہے۔
بہرحال زبانوں میں دیگر الفاظ کی شمولیت غیر معمولی بات نہیں، لیکن اس کے ساتھ زبان کی بقا کے لیے ضروری ہے کہ اس کا ایک الگ تشخص برقرار رکھا جائے۔ اردو زبان کا معاملہ یہ ہے کہ یہ مملکتِ خداداد پاکستان کی سرکاری زبان ہے اور ہندوستان میں بسنے والے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد بھی اردو ہی بولتی اور سمجھتی ہے۔ اس کے علاوہ متحدہ عرب امارات، یورپ، جنوبی افریقہ وغیرہ میں بھی اُردو دان طبقہ بڑی تعداد میں موجود ہے۔ چونکہ مسلمانانِ عالم کی ایک بڑی تعداد اردو سے وابستہ ہے، اس لیے ان کی دینی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے چھوٹی بڑی بے شمار دینی تالیفات اردو میں موجود ہیں۔ بے شمار عربی اور فارسی کتب کے اردو تراجم ہو چکے ہیں، بلکہ عربی زبان کے بعد (جو کتاب و سنت کی زبان ہے) ’’ اردو اَب غالباً دینی ذخیرے کو شامل سب سے بڑی زبان ہے اور اس معاملے میں اُردو بعض اعتبار سے فارسی پر فوقیت رکھتی ہے۔
اس لیے اردو زبان کی حفاظت جہاں اس لیے ضروری ہے کہ یہ مسلمانانِ ہند و پاک کی پہچان ہے، وہاں اس سے بڑھ کر اس لیے ضروری ہے کہ اردو کی حفاظت سے ہمارے دینی سرمائے کی بھی حفاظت ہے۔ تقریباً دو صدیوں کی محنت سے جو بلند پایہ دینی علوم کا سرمایہ اردو کے ذریعے سامنے آیا ہے، اسے اگلی نسلوں تک پہنچانے کے لیے اردو ہی میں مزید تسہیل (آسان کرنے کی) اور تشریح کی ضرورت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج سے ایک صدی پیشتر نباضِ امت حضرت مولانا تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے امداد الفتاویٰ، جلد :۴ میں اردو زبان کی حفاظت کو ایک دینی ذمہ داری کے طور پر شرعاً مطلوب قرار دیا ہے۔
اردو زبان کے بولنے والوں کی خوش قسمتی ہے کہ انہوں نے اردو کو عربی رسم الخط کا جامۂ خوش زیبا پہنایا۔ اس رسم الخط کے ذریعے اردو والوں کے لیے اسلامی مصادر قرآنِ کریم، کتبِ احادیث اور دیگر دینی کتب کو پڑھنا اور سمجھنا آسان ہوگیا ہے۔ مزید یہ کہ دنیا کی دو بڑی زبانوں عربی اور فارسی تک رسائی بھی آسان ہوجاتی ہے، یہ اسی رسم الخط کا فیض ہے کہ اردو بولنے والا بچہ چند دنوں کی محنت سے قرآنی قاعدہ روانی سےپڑھ لیتا ہے۔ اس طرح عربی الفاظ کو دیکھنے سے اسے وہ اجنبیت نہیں ہوتی جو چینی یا روسی زبانوں کو دیکھنے سے ہوتی ہے۔
موبائل فون کے استعمال کی کثرت کے ساتھ اردو رسم الخط بھی متاثر ہو رہا ہے۔ پیغامات لکھنے کے لیے سہل پسند طبیعتوں کے حامل افراد بجائے اردو رسم الخط اپنانے کے رومن رسم الخط میں ہی لکھ دیتے ہیں۔ یہ رجحان بڑھنے کے ساتھ اس بات کا اندیشہ ہو گیا ہے کہ کہیں اردو کا رسم الخط ہی نہ بدل جائے۔ یہ اندیشہ محض اندیشہ نہیں، بلکہ بعض ملکوں میں واقعتاً ایسا بھی ہواہے کہ زبانوں کا رسم الخط بدل گیا ہے، مثلاً ترکی جس کی عثمانی خلافت صدیوں تک اُمت مسلمہ کی شوکت وسطوت کا مظہر رہی ہے، وہاں اس قسم کی صورتِ حال پیش آچکی ہے۔ مصطفیٰ کمال نے خلافت کے خاتمے کے بعد ۱۹۲۸ء میں ترکی زبان کا رسم الخط عربی کی جگہ لاطینی کر دیا، جس سے بعد میں آنے والی نسل کو زبان کے ساتھ ساتھ عربی رسم الخط سیکھنے کی اضافی مشقت کا سامنا کرنا پڑا۔ عثمانی ترکی زبان میں عربی کے کئی الفاظ شامل تھے، مصطفیٰ کمال کی جدید ترکی زبان کے لیےان الفاظ کو بھی نکال دیا گیا ۔اسی طرح تاجکستان کی زبان فارسی تھی، روسی اقتدار کے بعد اس زبان کا رسم الخط روسی کر دیا گیا، اب تاجک زبان جو درحقیقت فارسی زبان ہے، روسی رسم الخط میں لکھی ہونے کی وجہ سے ایک الگ زبان معلوم ہوتی ہے۔ تاجکستان وسط ایشیا کے اس زرخیز خطے میں شامل ہے، جہاں سے صدیوں علومِ اسلامیہ کی مختلف جہتوں میں بیش بہا خدمت کی گئی ہے۔ وہ کتابیں عربی رسم الخط میں عربی اور فارسی میں لکھی گئی ہیں۔ رسم الخط کی تبدیلی کی وجہ سے ان میں لکھی ہوئی عربی وفارسی عبارت پڑھنے کے لیے پہلے عربی حروف سے شناسائی حاصل کرنی پڑتی ہے (یہ بات انتہائی خوش آئند ہے کہ اب تاجکستان میں عربی فارسی رسم الخط کے احیاء کے لیے کام ہورہا ہے)۔
بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد اردو سے وابستہ ہے۔ تاہم بھارت میں اردو کا دائرۂ کار صرف مسلم آبادی تک ہی محدود نہیں، بلکہ ہندو اور سکھ آبادی میں بھی اردو کے چاہنے والوں کی ایک تعداد موجود ہے اور ان میں بعض نامی گرامی شعراء اور ادیب ہیں۔ موجودہ دور کی ہندی زبان اور اردو میں کئی الفاظ مشترک ہیں۔ اس طرح اردو زبان پاکستان اور بھارت کے درمیان فکر و نظر کی آگاہی کا انتہائی اہم ذریعہ ہے۔ غیر منقسم ہند میں دہلی کے نظام الدین مرکز سے دعوت و تبلیغ کی جس محنت کا آغاز ہوا، اس کے ذریعے دنیا بھر میں دینی شعور کے ساتھ اردو زبان کو بھی فروغ ملا اور اردو لسانِ دعوت بن کر اُبھری۔ تاہم بھارت میں اردو کو دیونا گری سنسکرت رسم الخط میں لکھنے کا رواج بھی عام ہے، ہندی وہاں کی سرکاری زبان ہے جو سنسکرت رسم الخط میں لکھی جاتی ہے، اس میں اردو کے کثیر الفاظ بھی شامل ہیں، تا ہم اس کا الگ رسم الخط اس کی بڑی شناخت ہے۔ حکومتی سرپرستی کے زیرِ اثر اردو بولنے والے لوگوں کی ایک بڑی تعداد وہاں اردو کو دیوناگری رسم الخط میں لکھ دیتی ہے۔ اردو کے ایک معروف بھارتی دانشور کے بقول کتاب اگر اردو رسم الخط میں گیارہ (۱۱۰۰) کی تعداد میں ہو تو بھی مشکل سے نکلتی ہے، جبکہ دیونا گری رسم الخط میں لکھی جانے والی کتاب پانچ ہزار کی تعداد میں ہو تو بھی آسانی سے بک جاتی ہے، حتیٰ کہ لوگ ولیمے کا دعوت نامہ دیتے ہیں تو وہ بھی دیوناگری خط میں لکھا ہوتا ہے۔
خود ہمارے ہاں بھی آہستہ آہستہ سائن بورڈ وغیرہ پر رومن رسم الخط لکھا جانے لگا ہے، جس کا رجحان ابھی تک تو کم ہے، لیکن بہرحال خطرے کی گھنٹی ضرور ہے، موبائل فون پر عجب بے ڈھنگم انداز میں رومن اردو (انگریزی حروف) میں لکھنے کا رواج چل پڑا ہے۔ حال پوچھنے کے لیے kia hal hay? (کیا حال ہے؟) وغیرہ لکھا جاتا ہے، إنا للہ وإنا إلیہ راجعون جیسے قرآنی الفاظ کو بھی رومن میں لکھا جاتا ہے۔ اہلِ علم نے قرآن کریم کو عثمانی رسم الخط کے علاوہ دوسرے رسم الخط میں لکھنے سے منع کیا ہے، قرآن کریم کی حفاظت کے ساتھ اس کے رسم الخط کی حفاظت کا بھی اہتمام ضروری ہے۔
عموماً جب لوگوں کو بتایا جاتا ہے کہ اردو کو درست رسم الخط میں لکھیں تو ان کا عذر ہوتا ہے کہ ہمارے لیے اس میں ٹائپ کرنا مشکل ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ مشکل اس کی مشق نہ کرنے کی وجہ سے ہے، عموماً سمارٹ فون کی میموری میں اردو کی بورڈ بھی ہوتا ہے، ورنہ انٹرنیٹ سے باآسانی ڈائون لوڈ کیا جاسکتا ہے۔ اس کو چند بار استعمال کرنے سے اردو کے صحیح رسم الخط میں ٹائپ کرنا آسان ہو جائے گا ۔دوسری بات جب ہمیں مسئلے کی حساسیت کا علم ہو گا تو ہم اپنی دینی اور ملی ذمہ داری سمجھ کر زبان کی حفاظت کی نیت سے اردو رسم الخط میں لکھیں گے، اردو رسم الخط کی حفاظت و فروغ کے حوالے سے عوام الناس اور اربابِ اقتدار کی خدمت میں چند نکات پیش خدمت ہیں، جو اس مقصد میں ان شاءاللہ! مددگار ہوں گے:
1-پہلی بات یہ کہ ہر شخص اردو کے صحیح رسم الخط کی حفاظت اپنی اہم قومی ثقافتی اور دینی ذمہ داری سمجھے۔
2-دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دے اور سمجھانے کی کوشش کرے۔
3- اپنے موبائل فون اور کمپیوٹر پراردو کی بورڈ انسٹال کر لے اور اس کا بکثرت استعمال بھی کر لے۔
4- جن حضرات کا ذریعۂ معاش کمپوزنگ سے وابستہ ہے، وہ ایسے اشتہار و اعلانات بنانے سے گریز کریں، جن میں اردو رومن رسم الخط میں لکھی جائے۔
5- اربابِ اقتدار کی طرف سے اردو زبان اور رسم الخط کے فروغ کی ترغیب اور حوصلہ افزائی ہو، مثلاً اردو خطاطی چاہے قلم سے ہو یا کمپیوٹر پر اس کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ نیز موبائل پر لکھے جانے والے پیغامات اردو رسم الخط میں لکھنے پر کوئی خصوصی پیشکش یا رعایت ہو۔
رسم الخط کی حفاظت زبان کی الگ شناخت میں بنیادی کردار ادا کر تی ہے۔ زندہ قومیں اپنی زبان کے رسم الخط کی حفاظت کرتی ہیں اور جس زبان کے رسم الخط کا تعلق محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندہ وجاوید زبان سے ہو، اس کی حفاظت اہم کیوں نہ ہوگی؟