بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

یہودیوں کے اپنے کلینڈر ہوتے ہوئے وہ عاشوراء کا روزہ محرم کے دس تاریخ کو کس طرح رکھتے تھے؟ آپ ﷺ کو کب معلوم ہوا کہ یہودی عاشوراء کا روزہ رکھتے ہیں؟


سوال

1- ہمارے  نبی  علیہ السلام نے کافی عرصے مدینے میں گزارے تو پھر آخری عرصے میں ہی کیوں معلوم ہوا ان کو کے یہود ١٠ محرم کا روزہ رکھتے ہیں ؟

2- ١٠ محرم کا روزہ یہود کے ہاں کہاں سے ثابت ہے جب کہ وہ تو اسلامی کیلنڈر نہیں مانتے؟   یہود تو ١٠ ویں دن ساتویں مہینے کے اپنے کیلنڈر کے حساب سے ہر سال روزہ رکھتے ہیں؟  جس دن وہ روزہ رکھتے ہیں اس دن کو ان کے ہاں (Yom Kippur)  کہا جاتا ہے. حوالہ پیش خدمت ہے ---- :

Yom Kippur definition is Yom Kippur - Holidays - HISTORY Yom Kippur—the Day of Atonement—is considered the most important holiday in the Jewish faith. Falling in the month of Tishrei (September or October in the Gregorian calendar), it marks the culmination of the 10 Days of Awe, a period of introspection and repentance that follows Rosh Hashanah, the Jewish New Year.

جواب

1- رمضان المبارک کے روزے فرض ہونے (سنہ 2 ہجری) سے پہلے مکی دور میں بھی  رسول اللہ ﷺ  اہتمام سے عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے اور مدینہ منورہ آنے کے بعد آپ ﷺ نے مسلمانوں کو بھی بہت اہتمام سے اس کا حکم دیا، بہت سے فقہاء کے مطابق اس وقت عاشوراء کا روزہ فرض تھا، پھر جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو عاشوراء کے روزے کی حیثیت استحباب کی رہ گئی۔ جیساکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ عاشوراء کے دن قریش جاہلیت کے زمانے میں روزہ رکھتے تھے اور آپ ﷺ بھی عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے، پھر جب آپ ﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ ﷺ نے مسلمانوں کو بھی عاشوراء کا روزہ رکھنے کا حکم دیا، پھر جب رمضان کے روزے فرض کردیے گئے تو اب وہی فرض ہیں، اور عاشوراء کے روزے کی فرضیت چھوڑ دی گئی، اب جو چاہے رکھے اور جو چاہے چھوڑ دے۔ (حدیث صحیح، جامع الترمذی، ابواب الصوم، باب ماجاء فی الرخصۃ فی ترک صوم یوم عاشوراء، (1/158) ط: قدیمی)

حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ ہمیں عاشوراء کے دن روزہ رکھنے کا حکم دیتے تھے اور اس کی ترغیب دیتے تھے اور اس دن ہمیں نصیحت کرنے کا اہتمام فرماتے تھے، پھر جب رمضان فرض کردیا گیا تو آپ ﷺ نے ہمیں نہ تو عاشوراء کے روزے کا حکم دیا نہ اس سے روکا اور نہ اس دن نصیحت کا اہتمام فرمایا۔ (مسلم، بحوالہ مشکاۃ)

آپ ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے مدنی دور کے آغاز سے ہی عاشوراء کا روزہ رکھا، اور ابتدا میں آپ ﷺ ہر عمل میں اہلِ کتاب کی مخالفت نہیں کرتے تھے، بلکہ ابتداءِ اسلام میں بہت سے اعمال میں تالیفِ قلوب کے لیے نرمی کی گئی، مسلمانوں کا قبلہ بیت المقدس مقرر کیا گیا وغیرہ۔ مدینہ منورہ آنے کے بعد آپ ﷺ اور صحابہ کرام تو اسلام کے حکم کے مطابق عاشوراء کا روزہ رکھتے تھے، جب آپ ﷺ نے یہود کو  عاشوراء کا روزہ رکھتے ہوئے دیکھا تو آپ ﷺ نے اس کے متعلق ان سے دریافت کیا، چناں چہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ مدینہ تشریف لائے تو دیکھا کہ یہود عاشوراء کا روزہ رکھتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے ان سے فرمایا: یہ کیسا دن ہے جس کا تم روزہ رکھتے ہو؟ یہود نے کہا: یہ بڑا دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو نجات دی تھی، اور فرعون اور اس کی قوم کو غرق کیا تھا، اس کے شکر میں موسی علیہ السلام نے روزہ رکھا، ہم بھی اسی لیے روزہ رکھتے ہیں۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ہم موسی علیہ السلام کے طریقے کی پیروی اور اتباع کے زیادہ حق دار اور ان سے قریب ہیں، چناں چہ آپ ﷺ نے خود بھی روزہ رکھا اور مسلمانوں کو بھی عاشوراء کے روزے کا حکم دیا۔ (بخاری ومسلم)

آپ ﷺ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی موافقت اور اتباع کا ذکر فرمایا کہ ہم یہ روزہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی موافقت میں رکھیں گے اور ہم انبیاء کرام علیہم السلام کے طریقے کی پیروی کے زیادہ حق دار ہیں۔ بعد میں جب یہود کی مکاریوں اور ضد وعناد کے نتیجے میں آپ ﷺ نے یہود کی مخالفت کا حکم دیا تو اس وقت لوگوں نے آپ ﷺ سے عاشوراء کے روزے کے حوالے سے بھی دریافت کیا، چناں چہ ''حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جس وقت رسول اللہ  صلی اللہ علیہ وسلم نے دس محرم کے دِن روزہ رکھا اَور صحابہ کوبھی اِس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا تو صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! یہ ایسا دن ہے کہ یہودونصارٰی اِس کی بہت تعظیم کرتے ہیں (اَورروزہ رکھ کر ہم اِس دِن کی تعظیم کرنے میں یہودونصارٰی کی موافقت کرنے لگتے ہیں جب کہ ہمارے اَوراُن کے دین میں بڑا فرق ہے )، آپ نے فرمایا:  آئندہ سال اِن شاء اللہ ہم نویں تاریخ کو (بھی) روزہ رکھیں گے۔ حضرت ابن ِعباس  فرماتے ہیں کہ آئندہ سال محرم سے پہلے ہی  آپ ﷺ کاوصال ہوگیا''۔
"سمعت عبد الله بن عباس رضي الله عنهما يقول: حين صام رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم عاشوراء وأمر بصيامه، قالوا: يا رسول الله إنه يوم تعظمه اليهود والنصارى، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «فإذا كان العام المقبل إن شاء الله صمنا اليوم التاسع»، قال: فلم يأت العام المقبل، حتى توفي رسول الله صلى الله عليه وسلم" . (صحيح مسلم، (2/ 797)

لہذا مذکورہ بالا تفصیل سے معلوم ہوا ہے آپ ﷺ  نے جب اہلِ کتاب کی مخالفت کا حکم دیا  تو اس وقت  صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عاشوراء کے روزہ سے متعلق بھی سوال کیا، جس پر آپ نے آئندہ سال ان کی مخالفت کے لیے ایک روزہ مزید ملانے کا قصد کیا، اور یہ آپ کی وفات سے ایک سال قبل ہوا، ورنہ فی نفسہ یہود کا عاشوراء کے دن  روزہ رکھنا آپ کو مدینہ آنے کے بعد ہی  معلوم ہوگیا تھا۔

2- باقی  یہود اس زمانہ میں قمری اور شمسی دونوں حساب کیا کرتے تھے، اور  وہ اپنے سال کے پہلے مہینہ تشرین  کی  دسویں  تاریخ کو روزہ رکھتے تھے جسے آج کل ’’یوم کپور‘‘  کہاجاتا ہے (تشرین یا تشری ان کے عبادت کے سال کا پہلا مہینہ ہے،جسے ’’رأس السنہ‘‘ بھی کہا جاتا ہے، البتہ اب موجود کلینڈر میں اسے ساتواں مہینہ شمار کیا جاتا ہے، نیز اب بھی یہ عام معمولاتِ زندگی کے  شمار کے مطابق تو اسے ساتویں مہینہ میں شمار کرتے ہیں ، لیکن اپنی مذہبی رسومات وغیرہ کے حساب سے اسے پہلا مہینہ ہی شمار کرتے ہیں ) جب آپ ﷺ مدینہ آئے  تو یہود نے اسی ماہِ تشرین کے دسویں دن روزہ رکھا ہوا تھا اور یہ ان کا عاشورہ تھا، پھر  آپ  ﷺ نے آئندہ سال محرم کےدسویں تاریخ  کو عاشوراء کے روزہ کا حکم دیا اس واقعہ کی اصل وضع اور حقیقت کے اعتبار سے، اور آپ نے ان یہود کی تغیر شدہ تبدیلی کا اعتبار نہیں کیا۔ جیسا کہ معارف السنن میں ہے:

"قال الشيخ: والجواب عن ذلك أن اليهود كانوا يحبسون  بالشهور الشمسية والقمرية جميعاً، فكان بعضهم عاشوراء عاشر تشرين  الأول  بالشهور الشمسية، فلعله صادف قدومه في الربيع الأول يوم عاشورائهم في تشرين الأول، ثم أمر صلى الله عليه وسلم  بصيامه في عاشر المحرم  في السنة  المقبلة  عملاً بأصل وضعه وحقيقته  دون ما أحدثوا  في تاريخه من التغيير  بتحويل القمري إلى الشمسي". (معارف السنن، (5/440) مجلس الدعوة والتحقيق الاسلامي)

 اس سلسلے میں ابن قیم رحمہ اللہ  لکھتے  ہیں:
’’اور اگر یہودیوں کا اعتماد شمسی مہینوں  پر ہو تو کوئی اشکال بھی باقی نہیں رہتا کہ جس دن اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام کو نجات دی وہ دس محرم یعنی عاشوراء کا دن ہی تھا، لیکن یہودیوں نے اس دن کو شمسی مہینوں کے اعتبار سے یاد رکھا، اور اس طرح سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی ربیع الاول میں مدینہ منورہ آمد پر یہودیوں  نے اپنے شمسی  اعتبار سے اس دن کا روزہ رکھا ہوا تھا، چوں کہ شمسی مہینوں کے ایام قمری مہینوں کے اعتبار سے تبدیل ہوتے  رہتے ہیں، اور اہلِ کتاب  شمسی مہینوں کا اعتبار کرتے ہوئے روزہ رکھتے ہیں، جب کہ مسلمان  روزہ، حج اور دیگر فرض یا نفل عبادات کے لیے قمری مہینوں کا اعتبار کرتے ہیں، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: (ہم موسیٰ [علیہ السلام]کے ساتھ تم سے زیادہ تعلق رکھتے ہیں) اس طرح سے اس دن کی تعظیم  اور یومِ نجاتِ موسیٰ  کی تعیین کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی طرف سے پہلا حکم صادر ہوا، جب کہ یہودیوں نے اس دن کی تعیین میں غلطی کی؛ کیوں کہ  یہ دن شمسی  ایام کے اعتبار سے ہر سال بدلتا رہتا ہے، بالکل اسی طرح عیسائیوں نے بھی  اپنے روزوں کی تعیین  کے لیے غلطی کی اور اسے سال  کے کسی خاص موسم کے ساتھ مختص کر دیا‘‘۔  (زاد المعاد في هدی خير العباد : 2 / 69 ، 70 )

لیکن حافظ ابن حجر رحمہ اللہ  نے اس توجیہ کو احتمال  کے ساتھ ذکر کیا، اور پھر اس کا رد بھی کیا، اور ابن قیم کی ترجیح کو مسترد کر دیا، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:    
’’کچھ متاخرین کا کہنا ہے کہ  ہو سکتا ہے کہ یہودی شمسی مہینوں کے اعتبار سے روزے رکھتے تھے، چنانچہ  ربیع الاول کے ماہ میں نجاتِ موسی کا دن آنا ممکن ہے، تو اس طرح کوئی بھی اشکال باقی نہیں رہ جاتا، ابن قیم  نے [زاد المعاد] میں اسی کو ثابت کیا ہے [کہ اہلِ کتاب  شمسی اعتبار سے روزے رکھتے تھے]۔
میں [ابن حجر] کہتا ہوں کہ ابنِ قیم رحمہ اللہ کی طرف سے تمام اشکال ختم ہو جانے کا دعوی تعجب خیز ہے؛ کیوں کہ اس سے ایک اور اشکال پیدا ہوتا ہے، اور وہ یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  مسلمانوں کو عاشوراء کا روزہ رکھنے کا حکم دیا، اور شروع سے اب تک مسلمانوں میں یہ بات معروف ہے کہ یہ  روزہ صرف محرم میں آتا ہے، کسی اور مہینے میں نہیں آتا۔

مجھے طبرانی میں  زید بن ثابت سے جید سند کے ساتھ ایک اثر ملا ہے اس میں ہے کہ: ’’عاشوراء کا دن وہ دن نہیں ہے جو عام لوگوں میں مشہور ہے، بلکہ اس دن میں کعبہ کا غلاف  چڑھایا جاتا،  اور حبشہ کے لوگ اس دن جنگی آلات  کے ذریعے کھیل کود کرتے تھے، اور یہ دن پورے سال میں کسی بھی دن  آیا کرتا تھا! اور لوگ فلاں یہودی کے پاس [اس دن کی بابت ] پوچھنے کے لیے آیا کرتے تھے، جب وہ مر گیا تو پھر لوگ زید بن ثابت کے پاس آ کر پوچھنے لگے۔‘‘

تو اس اثر کے مطابق  تطبیق کی صورت یہ ہے کہ: اصل میں بات ایسے ہی ہے، لیکن جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے عاشوراء  کے روزے کا حکم دیا تو لوگوں کو اصل شرعی حکم کی  طرف رجوع کرنے کا حکم دیا اور وہ ہے قمری مہینوں کا اعتبار، تو مسلمانوں نے اسی کو اپنایا۔    
لیکن ابن قیم رحمہ اللہ کا یہ کہنا کہ اہل کتاب اپنے روزوں کے لیے شمسی مہینوں کا اعتبار کرتے تھے، یہ قابلِ تردید بات ہے؛ کیوں کہ یہودی بھی اپنے روزوں کے لیے چاند ہی کا اعتبار کرتے ہیں، اور ہمارا یہودیوں کے بارے مشاہدہ بھی یہی ہے، اس لیے اس بات کا قوی احتمال ہے کہ کچھ یہودی  شمسی  مہینوں کا اعتبار کرتے ہوں، لیکن اِن یہودیوں کا آج کوئی وجود نہیں ہے، جس طرح عزیر علیہ السلام کو -نعوذ باللہ-اللہ کا بیٹا کہنے والوں کا کوئی وجود نہیں ہے‘‘ ۔  (فتح الباری)

زاد المعاد في هدي خير العباد (2/ 66):
"فالجواب عن هذه الإشكالات بعون الله وتأييده وتوفيقه:
أما الإشكال الأول، وهو أنه لما قدم المدينة وجدهم يصومون يوم عاشوراء، فليس فيه أن يوم قدومه وجدهم يصومونه، فإنه إنما قدم يوم الاثنين في ربيع الأول ثاني عشرة، ولكن أول علمه بذلك بوقوع القصة في العام الثاني الذي كان بعد قدومه المدينة، ولم يكن وهو بمكة هذا، إن كان حساب أهل الكتاب في صومه بالأشهر الهلالية، وإن كان بالشمسية زال الإشكال بالكلية، ويكون اليوم الذي نجى الله فيه موسى هو يوم عاشوراء من أول المحرم، فضبطه أهل الكتاب بالشهور الشمسية، فوافق ذلك مقدم النبي صلى الله عليه وسلم المدينة في ربيع الأول، وصوم أهل الكتاب إنما هو بحساب سير الشمس، وصوم المسلمين إنما هو بالشهر الهلالي، وكذلك حجهم، وجميع ما تعتبر له الأشهر من واجب أو مستحب، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: ( «نحن أحق بموسى منكم» ) .
فظهر حكم هذه الأولوية في تعظيم هذا اليوم وفي تعيينه، وهم أخطئوا تعيينه لدورانه في السنة الشمسية، كما أخطأ النصارى في تعيين صومهم بأن جعلوه في فصل من السنة تختلف فيه الأشهر.
وأما الإشكال الثاني، وهو أن قريشا كانت تصوم عاشوراء في الجاهلية، وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يصومه، فلا ريب أن قريشا كانت تعظم هذا اليوم، وكانوا يكسون الكعبة فيه، وصومه من تمام تعظيمه، ولكن إنما كانوا يعدون بالأهلة، فكان عندهم عاشر المحرم، فلما قدم النبي صلى الله عليه وسلم المدينة وجدهم يعظمون ذلك اليوم ويصومونه، فسألهم عنه فقالوا: هو اليوم الذي نجى الله فيه موسى وقومه من فرعون، فقال صلى الله عليه وسلم: ( «نحن أحق منكم بموسى» ) فصامه وأمر بصيامه تقريرا لتعظيمه وتأكيدا، وأخبر صلى الله عليه وسلم أنه وأمته أحق بموسى من اليهود، فإذا صامه موسى شكرا لله كنا أحق أن نقتدي به من اليهود، لا سيما إذا قلنا: شرع من قبلنا شرع لنا ما لم يخالفه شرعنا.
فإن قيل: من أين لكم أن موسى صامه؟ قلنا: ثبت في " الصحيحين " «أن رسول الله صلى الله عليه وسلم لما سألهم عنه فقالوا: يوم عظيم نجى الله فيه موسى وقومه وأغرق فيه فرعون وقومه، فصامه موسى شكرا لله، فنحن نصومه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: (فنحن أحق وأولى بموسى منكم ". فصامه وأمر بصيامه» ) فلما أقرهم على ذلك ولم يكذبهم علم أن موسى صامه شكرا لله، فانضم هذا القدر إلى التعظيم الذي كان له قبل الهجرة، فازداد تأكيدا حتى بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم مناديا ينادي في الأمصار بصومه وإمساك من كان أكل، والظاهر أنه حتم ذلك عليهم وأوجبه كما سيأتي تقريره".
فتح الباري لابن حجر (7/ 276):
" قوله: لما قدم النبي صلى الله عليه وسلم المدينة وجد اليهود يصومون عاشوراء، استشكل هذا؛ لأن قدومه صلى الله عليه وسلم إنما كان في ربيع الأول؟ وأجيب باحتمال أن يكون علمه بذلك تأخر إلى أن دخلت السنة الثانية، قال بعض المتأخرين: يحتمل أن يكون صيامهم كان على حساب الأشهر الشمسية فلايمتنع أن يقع عاشوراء في ربيع الأول ويرتفع الإشكال بالكلية، هكذا قرره ابن القيم في الهدي، قال: وصيام أهل الكتاب إنما هو بحساب سير الشمس، قلت: وما ادعاه من رفع الإشكال عجيب؛ لأنه يلزم منه إشكال آخر وهو أن النبي صلى الله عليه وسلم أمر المسلمين أن يصوموا عاشوراء بالحساب والمعروف من حال المسلمين في كل عصر في صيام عاشوراء أنه في المحرم لا في غيره من الشهور، نعم! وجدت في الطبراني بإسناد جيد عن زيد بن ثابت قال: ليس يوم عاشوراء باليوم الذي يقول الناس، إنما كان يوم تستر فيه الكعبة وتقلس فيه الحبشة وكان يدور في السنة وكان الناس يأتون فلاناً اليهودي يسألونه، فلما مات أتوا زيد بن ثابت، فسألوه فعلى هذا فطريق الجمع أن تقول: كان الأصل فيه ذلك، فلما أمر النبي صلى الله عليه وسلم بصيام عاشوراء رده إلى حكم شرعه وهو الاعتبار بالأهلة، فأخذ أهل الإسلام بذلك، لكن في الذي ادعاه أن أهل الكتاب يبنون صومهم على حساب الشمس نظر؛ فإن اليهود لايعتبرون في صومهم إلا بالأهلة هذا الذي شاهدناه منهم، فيحتمل أن يكون فيهم من كان يعتبر الشهور بحساب الشمس، لكن لا وجود له الآن كما انقرض الذين أخبر الله عنهم أنهم يقولون: عزير بن الله تعالى الله عن ذلك".

فتح الباري لابن حجر (4/ 247):
"[2004] قوله: عن أيوب عن عبد الله بن سعيد بن جبير عن أبيه وقع في رواية ابن ماجه من وجه آخر عن أيوب عن سعيد بن جبير والمحفوظ أنه عند أيوب بواسطة وكذلك أخرجه مسلم، قوله: قدم النبي صلى الله عليه وسلم المدينة فرأى اليهود تصوم، في رواية مسلم: فوجد اليهود صياماً، قوله: فقال: ما هذا؟ في رواية مسلم: فقال لهم: ما هذا؟ وللمصنف في تفسير طه من طريق أبي بشر عن سعيد بن جبير: فسألهم، قوله: هذا يوم صالح، هذا يوم نجى الله بني إسرائيل من عدوهم، في رواية مسلم: هذا يوم عظيم أنجى الله فيه موسى وقومه، وغرق فرعون وقومه، قوله: فصامه موسى، زاد مسلم في روايته شكراً لله تعالى، فنحن نصومه، وللمصنف في الهجرة في رواية أبي بشر: ونحن نصومه تعظيماً له، ولأحمد من طريق شبيل بن عوف عن أبي هريرة نحوه، وزاد فيه: وهو اليوم الذي استوت فيه السفينة على الجودي، فصامه نوح شكراً، وقد استشكل ظاهر الخبر لا قتضائه أنه صلى الله عليه وسلم حين قدومه المدينة وجد اليهود صياماً يوم عاشوراء، وإنما قدم المدينة في ربيع الأول؟ والجواب عن ذلك: أن المراد أن أول علمه بذلك وسؤاله عنه كان بعد أن قدم المدينة لا أنه قبل أن يقدمها علم ذلك، وغايته أن في الكلام حذفاً تقديره قدم النبي صلى الله عليه وسلم المدينة فأقام إلى يوم عاشوراء فوجد اليهود فيه صياماً، ويحتمل أن يكون أولئك اليهود كانوا يحسبون يوم عاشوراء بحساب السنين الشمسية فصادف يوم عاشوراء بحسابهم اليوم الذي قدم فيه صلى الله عليه وسلم المدينة، وهذا التأويل مما يترجح به أولوية المسلمين وأحقيتهم بموسى عليه الصلاة والسلام لإضلالهم اليوم المذكور وهداية الله للمسلمين له، ولكن سياق الأحاديث تدفع هذا التأويل، والاعتماد على التأويل الأول، ثم وجدت في  المعجم الكبير للطبراني ما يؤيد الاحتمال المذكور أولاً، وهو ما أخرجه في ترجمة زيد بن ثابت من طريق أبي الزناد عن أبيه عن خارجة بن زيد بن ثابت عن أبيه قال: ليس يوم عاشوراء باليوم الذي يقوله الناس، إنما كان يوم تستر فيه الكعبة وكان يدور في السنة وكانوا يأتون فلاناً اليهودي يعني ليحسب لهم فلما مات أتوا زيد بن ثابت فسألوه، وسنده حسن، قال شيخنا الهيثمي في زوائد المسانيد: لاأدري ما معنى هذا؟ قلت: ظفرت بمعناه في كتاب الآثار القديمة لأبي الريحان البيروني، فذكر ما حاصله: أن جهلة اليهود يعتمدون في صيامهم وأعيادهم حساب النجوم، فالسنة عندهم شمسية لا هلالية، قلت: فمن ثم احتاجوا إلى من يعرف الحساب ليعتمدوا عليه في ذلك، قوله: وأمر بصيامه، للمصنف في تفسير يونس من طريق أبي بشر أيضاً فقال لأصحابه: أنتم أحق بموسى منهم فصوموا، واستشكل رجوعه إليهم في ذلك، وأجاب المازري باحتمال أن يكون أوحي إليه بصدقهم أو تواتر عنده الخبر بذلك، زاد عياض أو أخبره به من أسلم منهم كابن سلام، ثم قال: ليس في الخبر أنه ابتدأ الأمر بصيامه، بل في حديث عائشة التصريح بأنه كان يصومه قبل ذلك فغاية ما في القصة أنه لم يحدث له بقول اليهود تجديد حكم، وإنما هي صفة حال وجواب سؤال، ولم تختلف الروايات عن ابن عباس في ذلك، ولا مخالفة بينه وبين حديث عائشة: إن أهل الجاهلية كانوا يصومونه كما تقدم؛ إذ لا مانع من توارد الفريقين على صيامه مع اختلاف السبب في ذلك ".

العرف الشذي شرح سنن الترمذي (2/ 178و179):
"واعلم أن في هذا الباب إشكالاً أورده رجل من هذا العصر وحاصله: أن صوم عاشوراء فضله إنما هو لأنه يوم خلص موسى عليه الصلاة والسلام من يد فرعون فيه، فالفضل باعتبار الشريعة الموسوية، وكان في اليهود الحساب شمسياً، فكيف انتقل صوم عاشوراء إلى عاشر المحرم من الحساب القمري؟ والجواب: أن صوم عاشوراء في اليهود كان عاشر الشهر الأول، من السنة المسمى بتشرين الأول فوضعه عليه الصلاة والسلام من الشهر الأول من سنتنا وهو عاشر المحرم، وفي المعجم الطبراني: أنه عليه الصلاة والسلام لما دخل المدينة وجد اليهود صاموا عاشوراء، فسأل أي يوم هذا؟ قالوا: عاشوراء خلص فيه موسى عليه الصلاة والسلام من يد فرعون، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: نحن أحق باتباع موسى عليه الصلاة والسلام، وكان دخل النبي صلى الله عليه وسلم المدينة في الربيع الأول، ولايمكن فيه عاشوراء المحرم، فلعله كان اتفق عاشر تشرين الأول بيوم دخوله من الربيع الأول، ثم لعل أمره بالصوم كان في عاشر المحرم، ثم أقول: إن اليهود كان بعضهم كان يصوم عاشر تشرين، وبعضهم عاشر المحرم، فدل على أنهم عالمون الحسابين الشمسي والقمري، وكذلك روايات تدل على علمهم الحساب الشمسي والقمري ويدل عليه القرآن العزيز: «إنما النسيء زيادة في الكفر» إلخ على ما فسر الزمخشري من الكبيسة، ويحولون الحساب القمري إلى الشمسي، وأيام السنة القمرية ثلاثمائة وأربعة وخمسون يوماً (354) ، وأيام السنة الشمسية ثلاثمائة وخمسة وستون يوماً وربع يوم (365) فبعد ثلاث سنين، تزيد الشمسية على القمرية بشهر، فكان العرب يقولون بعد التحويل نجعل صفر محرماً بناء على أن الكبيسة تصير ثلاثة عشر شهراً بعد ثلاث سنين، وكان الحرب في المحرم حراماً عليهم، وكذلك في الأربعة الحرم فهذا التحويل هو النسيء لا فرض محرم صفراً بلا قاعدة وضابطة، هذا والله أعلم وعلمه أتم". 
 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144001200039

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں