بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

یہ لے طلاق کے الفاظ مارپیٹ کے دوران استعمال کرنےس ے طلاق کاحکم


سوال

سوال یہ کہ میان بیوی میں جھگڑا ہورہا تھا بیوی نے کہا مجھے طلاق دے دو۔ شوہر نے غصہ میں اسے مارا اور مارتے ہوئے کہا تجھے طلاق چاہیئے ؟ یہ لے طلاق یہ کہہ کر مارا اور بار بار یہ الفاظ دہرائے اس کا کیا حکم ہے واضح رہے شوہر کی نیت معلوم نہیں ہوسکی۔

جواب

صورت مسئولہ میں جب بیوی نے شوہرسے طلاق کامطالبہ کیااورشوہرنے جوابی ردعمل میں اسے مارااورمارتے ہوئے جو یہ الفاظ اداکئے ہیں کہ''یہ لے طلاق'' اوران الفاظ کے دھراتے وقت بھی شوہربیوی کوسزا دیتے رہے تومذکورہ صورت حال میں فقہاء کرام کی تصریحات کے مطابق طلاق واقع نہیں ہوئی۔اولاً:یہاں طلاق کی اضافت بیوی کی جانب نہیں پائی جارہی۔دوم: اگرمقصودطلاق دے کرفارغ کرناتھاتوسزادینے اورمارسے کیاحاصل!!چنانچہ المحیط البرہانی میں ہے:امرأة قالت لزوجها طلقني فضربها وقال: اينك طالق لا يقع لأنه لم يوجد الإضافة، ولو قال: ابيكت طلاق يقع كذا حكي عن شمس الأئمة الحلواني رحمه الله، «في مجموع النوازل» في «كتاب الأيمان» سئل شيخ الإسلام رحمه الله عن امرأة قالت لزوجها عند المشاجرة: مرا طلاق ده مر دجوب برداشت ومي زدومي كفت دار طلاق قال: لا تطلق، وسئل الإمام أحمد الغلاييني رحمه الله عن امرأة قالت لزوجها: طلقني فوكزها قال: اينك طالق ثم وكزها ثانياً وقال: اينك ذو طلاق ثم وكزها ثالثاً وقال: اينك ننته طلاق قال: تطلق ثلاثاً قال: ولو كان قال لها: اينك نكي، اينك دو، اينك ننته ولم يتلفظ بالطلاق لم تطلق، قال نجم الدين النسفي رحمه الله: جواب شيخ الإسلام في المسألة الأولى كجوابه في المسألة الثانية يعني لا تطلق۔[ المحيط البرهاني،3/421، ط: دار إحياء التراث العربي]


فتوی نمبر : 143604200008

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں