بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

یک طرفہ عدالتی خلع


سوال

ایک  امریکی عورت عدالت میں خلع کا مقدمہ دائر کرتی ہے اور شوہر طلاق نہیں دینا چاہتا، اگر عدالت عورت کے حق میں فیصلہ کرتے ہوئے خلع ، طلاق کا فیصلہ کرے تو کیا یہ فیصلہ نافذ ہوگا اور طلاق واقع ہوجائے گی؟

جواب

خلع اور طلاق  دونوں ہی شوہر کا اختیار ہے اور وہی دے سکتا ہے، عدالت  شوہر کی رضامندی  کے بغیر خلع دینے یا طلاق دینے  کا اختیار نہیں رکھتی ۔ البتہ اگر شوہر بیوی کو نہیں رکھنا چاہتا اور وہ عدالت کو طلاق دینے کا وکیل بنا دیتاہے، تو وکالت کے احکام کی رعایت ہونے کی صورت میں عدالت طلاق واقع کرسکتی ہے۔

ہاں! اگر شوہر کی  جانب سے بیوی پر ظلم ہو  جیسے نفقہ وغیرہ نہ دینا اور بیوی اس کو گواہوں کے ذریعے ثابت کردے   تو مسلمان قاضی عدالت میں  اس کے خلاف  جدائی کا فیصلہ کرسکتاہے۔اور اس صورت میں جدائی کا فیصلہ بھی مسلمان قاضی ہی کرے گا، غیر مسلم جج یہ فیصلہ نہیں کرسکتا، اس لیے غیر مسلم ملک میں ایسے نزاعی مسائل کے حل کی دو صورتیں ہیں:

1- وہاں کی حکومت سے درخواست کی جائے کہ اس نزاعی مسئلہ کے لیے کوئی مسلمان جج تعینات کیا جائے، خواہ عارضی طور پر اس کا تقرر ہو۔ (کما صرح بہ المفتی ولی حسن رحمہ اللہ)

2- وہاں مسلمانوں کی دین دار اور اصحابِ بصیرت پر مشتمل  جماعت کے روبرو مسئلہ پیش کیا جائے جس میں ایک دو مستند عالم بھی ہوں وہ معاملہ کی تحقیق کرکے شرائط کی موجودگی میں طلاق کا فیصلہ کریں۔

مذکورہ صورت میں اگر غیر مسلم جج کی عدالت میں یہ مقدمہ پیش کرکے طلاق یا خلع کا فیصلہ حاصل کیا گیا ہے تو یہ طلاق / خلع واقع نہیں ہوئی۔ درست طریقہ کار وہی ہے جو ابھی اوپر گزرا ہے، اسی کے مطابق اس مسئلے کو حل کیا جائے۔ یا پھر اسلامی ملک میں مقدمہ پیش کرکے اس کا فیصلہ کروایا جائے۔ فقط واللہ اعلم

نوٹ:  عدالت کی جانب سے جاری کردہ  کسی مخصوص ڈگری پر فتوی اسی وقت دیا جاسکتا ہے جب کہ عدالت کی کاروائی اور اس کی ڈگری مفتی  کے سامنے ہو۔


فتوی نمبر : 144010200694

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں