بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

یونیورسٹی میں پڑھائی کے دوران نظر کی حفاظت


سوال

یونیورسٹی میں پڑھائی کے دوران نظر کی حفاظت کس طریقے سے کی جائے؟

جواب

ایسے مخلوط تعلیمی ادارے  جہاں لڑکیوں  اور لڑکوں کو  حجاب کے احکام کی رعایت رکھے بغیر ساتھ  تعلیم دی جاتی ہے،  شریعت کے خلاف ہیں ۔ اس میں درج ذیل مفاسد ہیں:

1-  کئی بار ایسی نوبت بھی پیش آتی ہے کہ  ایک کمرے میں اجنبی مرد اور عورت خواہ ٹیچر ہو یا طالبہ  ایک ساتھ ہوتے ہیں اور  کوئی  تیسرا نہیں ہوتا۔ایسی خلوت کسی اجنبی عورت کے ساتھ جائز نہیں۔ حدیث شریفمیں ہے:

"عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِيَّاکُمْ وَالدُّخُولَ عَلَی النِّسَاء! فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ الْأَنْصَارِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! أَفَرَأَيْتَ الْحَمْوَ؟ قَالَ: الْحَمْوُ الْمَوْتُ۔ قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ وَجَابِرٍ وَعَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، قَالَ أَبُو عِيسَی: حَدِيثُ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَإِنَّمَا مَعْنَی کَرَاهِيَةِ الدُّخُولِ عَلَی النِّسَاء عَلَی نَحْوِ مَا رُوِيَ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لَا يَخْلُوَنَّ رَجُلٌ بِامْرَأَةٍ إِلَّا کَانَ ثَالِثَهُمَا الشَّيْطَانُ". 
ترجمہ:  حضرت عقبہ بن عامر سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا :غیر محرم عورتوں کے پاس داخل ہونے سے بچ کر رہو، ایک انصاری شخص نے عرض کیا:  یا رسول اللہ ﷺ ’’حمو‘‘  (یعنی شوہر کا بھائی اور عزیز واقارب) کے بارے میں  کیا ارشاد ہے؟  آپ نے فرمایا :’’حمو‘‘  تو موت ہے۔  اس باب میں حضرت عمر اور جابر، عمرو بن عاص سے بھی روایت ہے۔ حضرت عقبہ بن عامر کی حدیث حسن صحیح ہے, عورتوں کے پاس داخل ہونے سے ممانعت کا مطلب اسی طرح ہے جیسے کہ آپ ﷺ نے فرمایا :جب کوئی شخص کسی تنہا عورت کے پاس ہو تو تیسرا شیطان ہوتا ہے۔  (ترمذی)

"وعن جابر رضي الله عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : " ألا لايبتن رجل عند امرأة ثيب إلا أن يكون ناكحاً أو ذا محرم ". رواه مسلم".  (2/203)

2- اس میں اجنبی عورتوں کے چہرے کی طرف بھی  دیکھنے کی نوبت پیش آتی ہے،  اور کسی مرد کے لیے  شرعاً جائز نہیں کہ بلا ضرورتِ شدیدہ کسی اجنبی عورت کی طرف دیکھے۔

 لہذا ایسے تعلیمی ادارے  جہاں اجنبی مرد و عورت کا اختلاط ہو،قائم کرنا جائز نہیں۔شرعی پابندی کے علاوہ معاشرت  کا تقاضا بھی یہ ہے کہ تعلیمی ادارے جدا جدا ہوں۔

 پڑھنے والے لڑکوں  کے لیے لازم ہے کہ مطلوبہ شعبہ سے متعلق جب تک کوئی دوسرا ادارہ میسر ہو  جہاں اختلاط نہ ہو  وہاں تعلیم حاصل کریں، خواہ وہ ادارہ اس قدر مشہور نہ ہو۔  اور اگر ایسا ادارہ میسر نہ ہو ں اور  مخلوط تعلیمی ادارے میں ہی تعلیم حاصل کرنا  ناگزیر ہو تو  درج ذیل امور کا لحاظ کریں:

1-کسی بھی اجنبی عورت خواہ ٹیچر ہوں یا طالبہ  کے ساتھ اکیلے کمرے میں نہ رکیں اور نہ ہی اکیلے ملاقات کریں۔

2- خواتین کے چہرے کی طرف نگاہ نہ کی جائے۔ 

3- نیز لڑکیوں کے ساتھ پڑھائی کرنے کے بجائے صرف لڑکوں کے ساتھ مل کر ہی پڑھائی کریں۔

4-  مجبوراً کبھی کسی غیر محرم عورت سے بات کرنے کی ضرورت پیش آجائےتو  بوقتِ ضرورت بقدرِ ضرورت بات کرنا جائز ہے،  بلاضرورت جائز نہیں،  ہنسی مزاح کرنے یا اس کا جواب دینے کی گنجائش نہیں، سخت گناہ ہے،  بلاضرورت دیکھنا بھی جائز نہیں حتیٰ الامکان حفاظتِ نظر بھی ضروری ہے۔ 

5- نظروں کی حفاظت ہو یا دیگر گناہوں سے بچنا، اس سلسلے میں سب سے کار گر نسخہ نیک لوگوں کی صحبت ہے، لہٰذا کسی بھی متبعِ شریعت مستند عالمِ دین سے اصلاحی تعلق قائم رکھیے، ان سے اہم امور اور معاملات میں مشاورت کرتے رہیے، ان شاء اللہ دین پر چلنا آسان ہوجائے گا، نیز یونیورسٹی میں بھی دین دار طلبہ کا انتخاب کرکے ان کے ساتھ رہیے؛ تاکہ وہاں بھی پاکیزہ ماحول میسر آسکے۔

’’ ۔۔۔ إلامن أجنبیة فلایحل مس وجهها وکفها وإن أمن الشهوة؛ لأنه أغلظ ... وفي الأشباه: الخلوة بالأجنبیة حرام … ثم رأیت في منیة المفتي مانصه: الخلوة بالأجنبیة مکروهة وإن کانت معها أخریٰ کراهة تحریم‘‘ … ( درمختار مع الشامیة : ۲۶۰ / ۵ ) 

قال  العلامة الحصکفي رحمه اللّٰه تعالیٰ:  "وفي الشرنبلالیة معزیاً للجوهرة: و لایکلم الأجنبیة إلا عجوزاً عطست أوسلمت فیشمتها، و یرد السلام علیها و إلا لا، انتهی. وبه بان أن لفظة "لا" في نقل القهستاني، ویکلمها بما لایحتاج إلیه زائدة، فتنبه".

و قال العلامة ابن عابدین رحمه اللّٰه تعالیٰ:

" (قوله: زائدة) ببعده قوله: في القنیة رامزاً: ویجوز الکلام المباح مع امرأَة أجنبیة اهـ و في المجتبی رامزاً: و في الحدیث دلیل علی أنه لا بأس أن یتکلم مع النساء بما لایحتاج إلیه، و لیس هذا من الخوض في ما لایعنیه، إنما ذلك  في کلام فیه إثم اهـ فالظاهر أنه قول اٰخر أو محمول علی العجوز، تأمل. و تقدم في شروط الصلاة أن صوت المرأة عورة علی الراحج و مرالکلام فیه، فراجعه". (ردالمحتار۲۳۶؍۵)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012200684

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں