بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ہول سیل میں اشیاء فروخت کرنا


سوال

میڈیسن کی ایک مارکیٹ میں تین ہول سیل ڈیلر ہیں جوکہ گاہک کے ساتھ %13 تک رعایت کرتے ہیں۔ اور اسی مارکیٹ میں موجود دیگر دکان دار %5 تک رعایت کرتے ہیں۔ زیادہ رعایت کرنے کی وجہ سے گاہک مارکیٹ میں موجود ہول سیل دکان داروں کے پاس جاتے ہیں اور عام دکان داروں کے پاس نہیں جاتے ۔ مارکیٹ میں موجود عام دکان داروں نے بازار کے صدر اور دیگر عہدے داروں سے گاہک کے نہ آنے اور سیل کے نہ ہونے کی فریاد کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ مارکیٹ میں % 5 سے زیادہ رعایت کرنے والوں کو اس بات کا پابند بنالے کہ وہ بھی گاہک کےساتھ % 5سے زیادہ رعایت نہ کریں۔ بازار کے صدر نے دوسرے دکان داروں کی مجبوری کو دیکھ کر مارکیٹ میں موجود تمام دکان داروں پر یہ پابندی عائد کردی کہ کوئی بھی دکان دار گاہک کے ساتھ 5 فیصد سے زیادہ رعایت نہ کرے، اور اگر کسی نے اس پابندی کی پاس داری نہیں کی تو  اس پر ایک لاکھ روپےجرمانہ ہوگا اور مارکیٹ کا کوئی بھی دکان دار اور تمام میڈیسن کمپنی والے اس کے ساتھ کاروبار نہ کرنے کے پابند ہوں گے۔ مارکیٹ میں موجود ایک ہول سیل ڈیلر بازار کے صدر اوردیگر عہدے داروں کے اس فیصلے پر اعتراض کرتاہواکہتا ہے کہ یہ فیصلہ غیر شرعی اور ناجائز ہے اوربازار کے صدر وغیرہ کو اس طرح فیصلے کرنے کاشرعاً حق نہیں جب کہ مارکیٹ کے تمام دکان دار اس فیصلے پر راضی ہیں اور اس کو قبول کرتےہیں ۔ مطلوبہ مسئلہ کی صورت مذکورہ میں شرعاً حق بجانب کون ہے ؟

جواب

مارکیٹ میں موجود ہول سیلرز اگر اپنی ادویہ دیگردکان داروں کی بہ نسبت زیادہ رعایت کے ساتھ فروخت کرتے ہیں تو انہیں اس کا حق حاصل ہے،دیگردکان داروں کااس پر اعتراض کرنا درست نہیں، نیزہول سیلرز جب ایک مناسب نفع وصول کرلیتے ہیں تو اخلاقی طور پر بھی انہیں خریداروں سے زیادہ نفع وصول کرنے کا پابند بنانے کا کسی کو حق حاصل نہیں ہے۔

جس طرح زیادہ نفع پر فروخت کرنے اور کم رعایت کرنے کا پابند کرنا درست نہیں اسی طرح زیادہ رعایت کرنے والوں پر جرمانہ لگانا یاان سے خریدوفروخت پر پابندی لگانا یہ بھی ناجائز عمل ہے۔مالی جرمانہ لیناشرع میں حرام ہے۔اور کسی پر خریدوفروخت کے لحاظ سے پابندی لگانا جب کہ خلافِ شرع کوئی امر موجود نہ ہو جائز نہیں ہے۔ حدیث شریف میں ہے:

’’عن أنس قال: غلا السعر علی عهد النبي صلی الله علیه  وسلم، فقالوا: یا رسول الله سعر لنا! فقال النبي صلی الله علیه وسلم: إن الله هو المسعر القابض الباسط الرازق، وإني لأرجو أن ألقی ربي ولیس أحد منکم یطلبني بمظلمة بدم ولامال‘‘. رواه الترمذي وأبوداؤد وابن ماجه والدارمي‘‘. (مشکاة المصابیح، باب الاحتکار، ص:۲۵۱)

ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں نرخ گراں ہوگئے، تو لوگوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ ہمارے لیے قمیتیں مقرر کردیجیے! تو نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: بے شک اللہ تعالی ٰ ہی قیمتیں مقرر کرنے والا، (روزی کے دروازے اور اسباب) بند کرنے والا، (روزی کے دروازے) کھولنے والا اور روزی دینے والا ہے، اور میں چاہتاہوں کہ میں اپنے رب سے اس حال میں ملوں کہ تم میں سے کوئی جان یا مال کی زیادتی کے حوالے سے مجھ سے مطالبہ نہ کرے۔

ہدایہ میں ہے:

’’ویجوز للبائع أن یزید للمشتري في المبیع، ویجوز أن یحط عن الثمن‘‘... الخ (ہدایۃ، کتاب البیوع، باب المرابحۃ والتولیۃ)

فتاوی شامی میں ہے:

’’لایجوز لأحد من المسلمین أخذ مال أحد بغیر سبب شرعی، وفي شرح الآثار التعزیر بالمال کان فی ابتداء الإسلام ثم نسخ، والحاصل أن المذہب عدم التعزیر بأخذ المال‘‘. (شامی کتاب الحدود، مطلب: فی التعزیر بأخذ المال کراچی۴/۶۱)

 

مفتی کفایت اللہ رحمہ اللہ اسی نوعیت کے ایک سوال کے جواب میں تحریرفرماتے ہیں :

''زید اگر نقد کی صورت میں بھی بازار کے نرخ سے کم دیتاہے تواس کااثر اس پر پڑے گا،اور نقصان اٹھائے گا،اور شریعت میں ا س کے ناجائز ہونے کی کوئی وجہ نہیں ''۔(کفایت المفتی 8/53) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143907200044

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں