قاری وغیرہ جو گھروں میں پڑھاتے ہیں وہ اگر زکات وغیرہ مانگے اپنے لیے، کیا ان کو زکات دینی چاہیے یا نہیں؟
اور ان کا اس طرح سے مانگ کر لینا کیسا ہے ان گھروں سے؟
1۔۔ اگر وہ مستحقِ زکات ہو یعنی اس کی ملکیت میں اس کی ضرورتِ اصلیہ سے زائد نصاب (یعنی ساڑھے باون تولہ چاندی) کے برابر رقم نہیں ہے ، اور نہ ہی اس قدر ضرورت سے زائد سامان ہے کہ جس کی مالیت نصاب کے برابر بنتی ہے اور نہ ہی وہ سید ، ہاشمی ہے تو اس شخص کے لیے زکات لینا جائز ہے، اور اس کو زکات دینے سے زکات ادا ہوجائے گی، زکات دینے والے کا غالب گمان یہ ہو کہ جسے زکاۃ دی جارہی ہے وہ مستحق ہے اور اس کا دل مطمئن ہو تو اس کو زکات دینا جائز ہے، خواہ یہ اطمینان مستحق کی ظاہری حالت دیکھ کر ہو رہا ہو یا مستحق کے خود بتانے سے یا اس کے زکات کا سوال کرنے سے غالب گمان حاصل ہوجائے، مزید تحقیق وتفتیش کی ضرورت نہیں ہے۔
2۔۔ اگر کسی آدمی پر فاقہ ہو یا واقعی کوئی سخت ضرورت پیش آگئی ہو جس کی وجہ سے وہ انتہائی مجبوری کی بنا پر سوال کرے تو اس کی گنجائش ہے، لیکن اس کی عادت بنانا اچھا نہیں ہے۔ اور اگر سخت ضرورت نہ ہو تو نہیں مانگنی چاہیے، لیکن مستحق ہونے کی صورت میں بہر حال زکات ادا ہوجائے گی۔
مال دار مسلمانوں کو چاہیے کہ جو لوگ ضرورت مند ہوں اور ان کی ظاہری حالت سے لگتا ہو کہ وہ مستحق ہیں تو وہ ان کے کہے بغیر ہی ان کی مدد کردیں کہ انہیں مانگنے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144008200660
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن