بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گھر یا کاروبار کی جگہ کے راس نہ آنے کی شرعی حیثیت


سوال

کیا ہمارے دین میں ایسی کوئی بات ہے کہ جگہ (گھر یا کاروبارکی جگہ) راس نا ہو تو تبدیل کرلی جائے۔مطلب ایسی کوئی بات ہے کہ کوئی جگہ راس آتی ہے یا یہ من گھڑت باتیں ہیں؟ تفصیل سے جواب دیجیے!

جواب

راس نہ آنے سے مراد اگر یہ ہو کہ یہ جگہ نحوست والی ہے تو  اس بات کی شریعت میں کوئی اصل نہیں ہے، بلکہ حدیث شریف میں  کسی بھی چیز میں نحوست ہونے کی بالکل صاف اور صریح نفی وارد ہوئی ہے، بعض احادیث میں آیا ہے کہ اگر کسی چیز میں نحوست ہوتی تو وہ عورت، گھر اور سواری میں ہوتی۔ لیکن جب ان چیزوں میں نحوست نہیں ہے تو کسی بھی چیز میں نحوست نہیں ہے۔

البتہ اگر کسی شخص کا اپنے گھر یا کاروبار کی جگہ  میں دل نہ لگ رہا ہو اور  دل  مطمئن نہ ہورہا ہو تو اس جگہ کو تبدیل کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے، خصوصاً اگر اس جگہ رہنے میں وساوس و اوہام کی وجہ سے عقیدہ متاثر ہورہاہو تو بہتر ہے کہ شکوک و اوہام سے نجات اور ذہنی وقلبی سکون کے لیے اس جگہ کو چھوڑ دیا جائے، لیکن نحوست کا عقیدہ رکھنا درست نہیں ہے۔

صحيح البخاري (7/ 126):

"وقال عفان: حدثنا سليم بن حيان، حدثنا سعيد بن ميناء، قال: سمعت أبا هريرة، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا عدوى ولا طيرة، ولا هامة ولا صفر، وفر من المجذوم كما تفر من الأسد»".

عمدة القاري شرح صحيح البخاري (14/ 151):

" حدثنا عبد الله بن مسلمة عن مالك عن أبي حازم بن دينار عن سهل بن سعد الساعدي رضي الله تعالى عنه أن رسول الله، صلى الله عليه وسلم قال: إن كان في شيء ففي المرأة والفرس والمسكن".

(الحديث 9582 طرفه في: 5905):

"قوله: (إن كان في شيء) ، إلى آخر هكذا هو في جميع النسخ، وكذا في (الموطأ) لكن زاد في آخره: يعني الشؤم، وكذا رواه مسلم: وهنا اسم: كان، مقدر تقديره: (إن كان الشؤم في شيء حاصلاً فيكون في المرأة والفرس والمسكن. فقوله: (إن كان في شيء) ... إلى آخره إخبار أنه ليس فيهن، فإذا لم يكن في هذه الثلاثة فلا يكون في شيء، والشؤم والطيرة واحد، والطيرة شرك؛ لما روي أبو داود من حديث زر بن حبيش عن عبد الله بن مسعود عن رسول الله، صلى الله عليه وسلم، قال: (الطيرة شرك الطيرة شرك، ثلاثاً، وما منا إلا وفيه، ولكن الله، عز وجل، يذهبه بالتوكل). وأخرجه الترمذي، وقال: حديث حسن صحيح. وقوله: الطيرة شرك خارج مخرج المبالغة والتغليظ، قوله: (وما منا إلا وفيه) فيه حذف تقديره: إلا وفيه الطيرة. أو: إلا قد يعتريه التطير، ويسبق إلى قلبه الكراهية، فيه، فحذف اختصاراً واعتماداً على فهم السامع، والدليل على أن الطيرة والشؤم واحد، قوله صلى الله عليه وسلم: (لا عدوى ولا طيرة وإن كان في شيء ففي المرأة والفرس والدار) . رواه أبو سعيد. وأخرجه عند الطحاوي".


فتوی نمبر : 144004200090

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں