میں اور میرے دوست نے مل کر ایک زمین خریدی اور اس زمین پر ایک مکان تعمیر کیا جو دو منزلہ ہے، اس پورے عمل کے خرچے میں دوست کی ٪70 شراکت تھی اور میری ٪30۔ اب چاہتا ہوں کہ یہ مکان مکمل میرا ہو، اس کے لیے ایک معاہدہ طے پایا، وہ یہ ہے:
تعمیر شدہ مکان کی مارکیٹ ویلیو دیکھی جائے گی، اگر ایک کروڑ میں بنا ہے اور ایک کروڑ 45لاکھ میں بک رہا ہے تو مجھے دوست کو ایک کروڑ 45لاکھ کا ٪70 ادا کرنا ہوگا، جب تک ادائیگی مکمل نہیں ہوتی دوست مکان کے منافع کا حصہ دار رہے گا، جو کرایہ کی صورت میں ملے گا، اگر اس مہینے میں٪70 میں سے ٪10 ادا کیا تو وہ اگلے مہینے ٪60 منافع کا مالک ہوگا، اسی طرح سلسلہ جاری رہے گا، جب تک مکمل ٪70 ادا نہیں کرتا، کیا یہ معاہدہ شرعی نظر سے صحیح ہے؟
مذکورہ صورت میں جب خریداری کا معاہدہ ہو گیا تو اس صورت مٰیں بیچنے والے کا حق کرائے میں ختم ہوگیا ہے۔وہ صرف اپنی رقم کا حق دار ہے، اس کی طرف سے کرایہ کا مطالبہ جائز نہیں، اگر یہ شرط لگاتاہے تو یہ شرط فاسد ہے، اس کو ختم کرنا ضروری ہے، ورنہ معاملہ فاسد ہوگا اور فریقین گناہ گار ہیں۔اس میں یہ صورت ممکن ہے کہ موجودہ معاہدہ ختم کرکے گھر مارکیٹ ویلیو سے زیادہ قیمت میں بیچا جائے جو باہم رضامندی سے متعین کرلیں کہ 70 فیصد والے شریک کا نفع بھی نکل آئے ۔
"عن عمرو بن شعیب عن أبیه عن جده أن النبي ﷺ نهی عن بیع وشرط... الخ (مجمع الزوائد، دارالکتب العلمیة بیروت ۴/ ۸۵، نصب الرأیة ۴/ ۴۳، المعجم الأوسط، دارالفکر ۳/ ۲۱۱، رقم: ۴۳۶۱) فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144012200631
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن