والدین اور گھر والوں کی فکر کیسے کی جائے؟ اور ان کو تنبیہ کرنا کیا جائز ہے؟ اگر جائز ہے تو ان کو تنبیہ و دعوت دینے کیا آداب ہیں؟
ہر مسلمان پر اپنے ماتحت اور اہلِ خانہ کی اصلاح بنصِ قرآنی لازم ہے، البتہ اصلاح کا انداز ناصحانہ وحکیمانہ ہونا چاہیے، اور کسی معاملہ میں ایسا انداز اختیار کرنے کی اجازت نہیں جس سے مخاطب برانگیختہ ہوجائے اور شرعی حکم کا صریح انکار کر بیٹھے اور اپنا ایمان گنوا دے، خصوصاً والدین کو نصیحت کرتے ہوئے ان کے ادب کو بھی ملحوظ رکھا جائے، بہتر صورت یہ ہوگی کہ ابتدا میں بزرگوں کی محافل میں لے جانے کا اہتمام کیا جائے، تاکہ دین کا ماحول میسر آنے سے دین کی طرف رغبت پیدا ہوسکے۔
سورہ مریم آیت نمبر 42 تا 48 پارہ نمبر 16 میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اپنے والد کو نصیحت کرنے کا ذکر فرمایا ہے، کہ والد کے سخت اور ترش رویے کے باوجود حضرت ابراہیم علیہ السلام نے محبت بھرا مؤدبانہ طرز ترک نہیں کیا۔ اسی طرح سورہ لقمان آیت نمبر 13 تا 19 پارہ نمبر 21 میں حضرت لقمان کا اپنے بیٹے کو نصیحت کرنا مذکور ہے، انہوں نے بھی محبت اور حکمت سے بھرپور طرزِ تخاطب اختیار فرمایا ہے۔ نیز انبیاءِ کرام علیہ السلام کی دعوت کے اسالیب بھی قرآنِ مجید میں مذکور ہیں، ان مذکورہ آیات سے استفادہ کرتے ہوئے اصلاح کے لیے حکیمانہ و ناصحانہ اسلوب اختیار کیا جائے۔ فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144008200338
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن