بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گھر بچانے کے لیے جھوٹی قسم کھانا


سوال

کیا اپنی شادی شدہ زندگی بچانے کے لیے جھوٹی قسم کھائی جاسکتی ہے؟جیسے کہ میں نے کوئی کام کیا ہے اور خاوند کو معلوم پڑنے پر طلاق کی نوبت آسکتی ہے یا کوئی کام نہیں کیا جو کرنا تھا تو نکاح بچانے کے لیے خاوند یا چند لوگوں کے سامنے اللہ یا قرآن کی قسم کھا لی تو اس کا کیا گناہ اور کفارہ ہو گا؟ کیا گھر بچانے کے لیے اللہ اور قرآن کی جھوٹی قسم کھا سکتے ہیں؟

جواب

جھوٹی قسم کھانا کبیرہ گناہوں میں سے شدید ترین گناہ ہے، جھوٹی قسم کا مطلب یہ ہے کہ انسان اللہ رب العزت والقدرۃ کا نام استعمال کرکے اور اللہ تعالیٰ کو گواہ بناکر جھوٹ کہتاہے، لہذا مذکورہ صورت میں جھوٹی قسم کھانا جائز نہیں ہے، کوئی اور حیلہ وغیرہ  کرلیا جائے یا شوہر کے سامنے صورتِ حال بتاکر معافی مانگ لی جائے گی، گناہ کرکے فلاح حاصل نہیں کی جاسکتی، بلکہ سچ اور راستی کے ذریعے گھریلو زندگی کامیاب بنائی جاسکتی ہے۔ اور اگر کسی نے اس طرح کی جھوٹی قسم کھالی تو  اس طرح کی قسم پر کفارہ تو نہیں ہے، البتہ سچی توبہ واستغفار لازم ہے۔

صحيح البخاري (8/ 137):
"حدثنا فراس، قال: سمعت الشعبي، عن عبد الله بن عمرو، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " الكبائر: الإشراك بالله، وعقوق الوالدين، وقتل النفس، واليمين الغموس "
۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144003200442

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں