بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

گناہوں پر اصرارکرنا


سوال

جوشخص نماز اور قرآن بھی پابندی سے پڑھتا ہے ،عمرہ بھی ہر سال کرتا ہے اور گناہوں کی زندگی بھی گزار رہا ہے، گناہ کا ملال اور رنج تو اس کے دل میں شدت سے ہے اور زبانی توبہ بھی کرتا ہے ،روتا بھی ہے، اپنے گناہوں کو تسلیم بھی کرتا ہے لیکن نفس کے غلبے کی وجہ سے گناہ چھوڑنے کا کوئی ارادہ نہیں ،مثال کے طور پرٹی وی ،فلمیں ، بدنظری ، گانے سننا، مشت زنی، حتی کہ رمضان کے مبارک مہینہ میں بھی دل گناہ چھوڑنے کی طرف مائل نہیں ہوتا ، اور نہ ہی چھوڑنے کا کوئی ارادہ ہے، پریشانی بہت ہے پر چھوڑنا مشکل ہے( 1) کیا ایسا شخص گناہ پر اڑنے والوں میں شمار ہوگا ؟( 2) کیا اس کا شمار توبہ و استغفار کرنے والوں میں ہوسکتا ہے ؟ (3) اللہ کی ذات تو کسی کو بھی معاف کرے اس میں تو کوئی دو رائے نہیں ۔۔۔لیکن قرآن و سنت کی روشنی میں کیا ایسے شخص کی کوئی بچت ہے؟ یہ فرضی سوال نہیں ایسا میرے ایک دوست ہیں انہوں نے پوچھنے کے لئے کہا ہے۔

جواب

گناہوں کوترک کرنے کاارادہ ہی نہ کرناگناہوں پر صراحتاً اصرار کی علامت ہے،جوکہ خطرناک بات ہے۔قرآن کریم کی تلاوت اورعمرے کی ادئیگی بلاشبہ نیکی کے کام ہیں،نیکی کرناسہل ہے مگراس نیکی کومحفوظ کرنااورسنبھالنابھی ضروری ہے۔نیک اعمال سے صغیرہ گناہ تومعاف ہوتے ہیں مگرکبیرہ گناہوں کی معافی کے لیے سچی توبہ ضروری ہے،اگرکوئی آدمی گناہوں کے ترک کرنے کاعزم ہی نہ کرے اورگناہوں میں مبتلارہے تووہ گناہوں پراڑنے والاشمارہوگا۔

جب تک سچی توبہ نہ کرے اس وقت تک گناہ کابوجھ سرپررہے گا۔سچی توبہ کی تین شرائط ہیں:

1۔اپنے سابقہ گناہ پرشرمندگی اورندامت ہو۔

2۔جس گناہ میں مبتلاہے اسے فوراً ترک کردے  اس میں مشغول نہ رہے۔

3۔آئندہ اس گناہ میں مبتلانہ ہونے کاپختہ عزم ہو۔

اگرانسان صدق دل سے توبہ کرنے کے بعدآئندہ کبھی اس گناہ میں پڑجائے تودوبارہ توبہ کرلینی چاہیے۔ایسی صورت میں وہ گناہوں پراصرارکرنے والوں میں شمارنہ ہوگا۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143612200034

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں