ایک عورت کے پاس تین تولے سونا ہےجو کہ 2004 کو اس کی ملکیت میں آیا تھا، اب 2019 کو فروخت کردیا تینوں تولے کو 95000 پر، اب تک کوئی زکاۃ ادا نہیں کی تو اب مسئلہ یہ ہے کہ گزشتہ سالوں کا زکاۃ کس طرح ادا کرے جب کہ ایک سال کی زکاۃ 95000÷40=2375 آتی ہے، جب ایک سال کی زکاۃ ادا کرے، دوسرے سال کی زکاۃ 95 ہزار کی ادا کرنا ہوگا یا2375 منہا کرکے92625 کی؟ اس طرح باقی تمام سالوں کی یعنی جس سال کی زکاۃ ادا کرے، اگلے سال سے وہ منہا کرنا ہوگا یا تمام سالوں کا 95 ہزار کے حساب سے ادا کرنا ہوگا؟
صورتِ مسئولہ میں اگر اس عورت کے پاس گزشتہ سالوں میں صرف تین تولہ سونا تھا، اس کے علاوہ چاندی، نقد رقم یا مال تجارت نہیں تھا، تو اس سونے پر زکاۃ لازم نہیں ہوگی، اس لیے کہ اگر کسی کی ملکیت میں صرف سونا ہو تو اس کا نصاب ساڑھے سات تولہ سونا ہوتا ہے۔
البتہ اگر اس عورت کے پاس تین تولہ سونے کے ساتھ چاندی، نقدی، یا مال تجارت بھی تھا تو اب ان کا نصاب ساڑھے باون تولہ چاندی کی بقدر رقم ہوگی، لہذا اس صورت میں اس عورت پر سونے کی زکاۃ ادا کرنا لازم ہوگئی تھی۔
اس کا طریقہ یہ ہے: زکوٰۃ ادا کرتے وقت سونے کی موجودہ قیمت کا اعتبار ہوگا، اور گزشتہ ہر سال کے بدلے اس کا ڈھائی فیصد ادا کیا جائے گا، اور اس مقدار کو اگلے سال کی زکاۃ نکالتے وقت منہا کیا جائے گا، اسی طرح آگے بھی کیا جائے گا، مثلاً زیور کی مالیت 95000 روپے ہے، اور ایک سال کے بدلے 2375 روپے زکاۃ دی تو اگلے سال کی زکاۃ نکالتے وقت اس کو منہا کرکے بقیہ 92625 روپے کا چالیسواں حصہ زکاۃ میں ادا کیا جائے گا، اگر چند سالوں کی زکاۃ نکالنے کے بعدزیور نصاب (ساڑھے باون تولہ چاندی کی قیمت) سے کم رہ جائے تو پھر اس کی زکاۃ ادا کرنا لازم نہیں ہوگا۔
بدائع الصنائع میں ہے:
"وأما وجوب الزكاة فمتعلق بالنصاب إذ الواجب جزء من النصاب، واستحقاق جزء من النصاب يوجب النصاب إذ المستحق كالمصروف … وبيان ذلك أنه إذا كان لرجل مائتا درهم أو عشرين مثقال ذهب فلم يؤد زكاته سنتين يزكي السنة الأولى، وليس عليه للسنة الثانية شيء عند أصحابنا الثلاثة، وعند زفر يؤدي زكاة سنتين، وكذا هذا في مال التجارة، وكذا في السوائم إذا كان له خمس من الإبل السائمة مضى عليها سنتان ولم يؤد زكاتها أنه يؤدي زكاة السنة الأولى وذلك شاة ولا شيء عليه للسنة الثانية، ولو كانت عشراً وحال عليها حولان يجب للسنة الأولى شاتان وللثانية شاة، ولو كانت الإبل خمساً وعشرين يجب للسنة الأولى بنت مخاض وللسنة الثانية أربع شياه. ولو كان له ثلاثون من البقر السوائم يجب للسنة الأولى تبيع أو تبيعة ولا شيء للسنة الثانية وإن كانت أربعين يجب للسنة الأولى مسنة وللثانية تبيع أو تبيعة". (2/7، کتاب الزکاۃ، ط: سعید) فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144010200810
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن