بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گروی پر مکان لینے کی جائز صورت


سوال

گروی پر مکان لینے کی جائز صورت کیا ہے؟کیا سیکورٹی کی صورت میں زیادہ رقم دے کر کم کرایہ ادا کیا جاسکتا ہے؟

جواب

اس سوال سے مراد اگر یہ ہے کہ مثلاً: آپ کے پاس کوئی شخص مکان گروی رکھتا ہے اور کچھ قرض وغیرہ لیتا ہےتو یہ مکان مرہون (گروی)ہے اور آپ مرتہن ہیں تو رہن کے مکان میں راہن کی اجازت سے کرایہ پر رہ سکتے ہیں، لیکن پہلا معاملہ (عقدِ رہن) کا ختم ہوجائے گا، اور اس پر اِجارہ (کرایہ داری) کے احکام جا ری ہوں گے، اور اگر گروی کے عوض ہی اس میں رہائش رکھی گئی تو یہ اپنے قرض سے نفع اٹھانا ہے جو شرعاً سود کے حکم میں ہے۔

اور اگر سوال کا مقصد یہ ہے کہ مکان کرایہ پر لینے کے لیے سیکورٹی کے طور پر کچھ رکھوانا جائز ہے یا نہیں؟ تو شرعاً یہ جائز ہے ، البتہ  سیکورٹی کی رقم میں اضافہ کرکے کرایہ معروف کرایہ سے بہت کم کرنا  شرعاً جائز نہیں خواہ فریقین کی باہمی رضا مندی سے ہی کیوں نہ ہو ۔

 اگر سوال سے کچھ اور مقصود ہے تو واضح کرکے دوبارہ سوال کیجیے۔

’’أنواع الربا: وأما الربا فهو علی ثلاثة أوجه:أحدها في القروض، والثاني في الدیون، والثالث في الرهون.

الربا في القروض: فأما في القروض فهو علی وجهین:أحدهما أن یقرض عشرة دراهم بأحد عشر درهماً أو باثني عشر ونحوها. والآخر أن یجر إلی نفسه منفعةً بذلک القرض، أو تجر إلیه وهو أن یبیعه المستقرض شيئا بأرخص مما یباع أو یوٴجره أو یهبه…، ولو لم یکن سبب ذلک (هذا ) القرض لما کان (ذلک )الفعل، فإن ذلک رباً، وعلی ذلک قول إبراهیم النخعي: کل دین جر منفعةً لا خیر فیه.‘‘ (النتف في الفتاوی ، ص ۴۸۴، ۴۸۵)

حاشية رد المحتار على الدر المختار (5/ 166):
’’لا يحل له أن ينتفع بشيء منه بوجه من الوجوه وإن أذن له الراهن؛ لأنه أذن له في الربا؛ لأنه يستوفي دينه كاملاً فتبقى له المنفعة فضلاً؛ فتكون رباً، وهذا أمر عظيم، 
 قلت: وهذا مخالف لعامة المعتبرات من أنه يحل بالإذن إلا أن يحمل على الديانة وما في المعتبرات على الحكم.
ثم رأيت في جواهر الفتاوى: إذا كان مشروطاً صار قرضاً فيه منفعة وهو رباً، وإلا فلا بأس به ا هـ ما في المنح ملخصاً‘‘. 
  ’’وَالْغالِبُ مِنْ اَحْوَالِ النَّاسِ اَنَّهَمْ اِنَّمَا یُرِیْدُونَ عِنْدَ الْدَفْعِ اَلاِنْتِفَاعَ وَلَولَاه لَمَا اَعْطَاه الْدَّرَاهمَ وَهذا بِمَنْزِلَةِ الْشَرْطِ؛ لِأَنَّ الْمَعْرُوفَ کَالْمَشْرُوطِ وَهوَ یُعِیْنُ الْمَنْعَ‘‘. (الدر المختار مع ردالمحتار، ج۵/ ص۳۱۱) 
فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144001200554

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں