بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

14 شوال 1445ھ 23 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

گرمی کی وجہ سے قمیص اور ٹوپی کے بغیر نماز پڑھنا


سوال

اگر کوئی شخص علٰیحدہ اپنے کمرے میں گرمی سے پریشان ہوکر کرتا اور ٹوپی اتار کر(یعنی صرف بنیان اور لنگی یا پاجامہ میں ) سنن و نوافل پڑھنا چاہے تو پڑھ سکتا ہے یا نہیں؟ اور اگر گرمی کی وجہ سے صرف ٹوپی نکال کر نماز پڑھے تو اس میں کوئی کراہت تو نہیں؟

جواب

نماز  ایک عظیم الشان عبادت ہے، اس کی ادائیگی میں انتہائی ادب کی رعایت کرنی چاہیے، نماز میں انسان اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضری دے رہا ہوتا ہے،  اور اللہ تعالیٰ سے مناجات کررہاہوتاہے، تو ایسے لباس میں اس عظیم الشان ذات کی بارگاہ میں حاضری دینا جس میں عام لوگوں کے سامنے جانا بھی گوارہ نہ کیا جاتا ہے بڑی کاہلی اور حرماں نصیبی ہے۔

لہذا صرف گرمی کی وجہ سے قمیص کے بغیر یا ٹوپی کے بغیر نماز پڑھنا مکروہ ہے، نماز کے لیے مکمل لباس پہنا جائے، ہاں اگر کوئی واقعی عذر ہو مثلاً  کپڑے ہی نہیں ہیں یا سر ڈھانپنے کے لیے کوئی چیز نہیں یا کسی بیماری کی وجہ سے ایسا کیا جائے تو کراہت نہیں ہوگی۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 641):
’’(وصلاته حاسراً) أي كاشفاً (رأسه للتكاسل) ولا بأس به للتذلل، وأما للإهانة بها فكفر .

(قوله: للتكاسل) أي لأجل الكسل، بأن استثقل تغطيته ولم يرها أمراً مهماً في الصلاة فتركها لذلك، وهذا معنى قولهم تهاوناً بالصلاة، وليس معناه الاستخفاف بها والاحتقار؛ لأنه كفر. شرح المنية. قال في الحلية: وأصل الكسل ترك العمل لعدم الإرادة، فلو لعدم القدرة فهو العجز.

مطلب في الخشوع
(قوله: ولا بأس به للتذلل) قال في شرح المنية: فيه إشارة إلى أن الأولى أن لايفعله وأن يتذلل ويخشع بقلبه؛ فإنهما من أفعال القلب. اهـ. وتعقبه في الإمداد بما في التجنيس من أنه يستحب له ذلك؛ لأن مبنى الصلاة على الخشوع. اهـ.
قلت: واختلف في أن الخشوع من أفعال القلب كالخوف أو من أفعال الجوارح كالسكون أو مجموعهما؟ قال في الحلية: والأشبه الأول، وقد حكى إجماع العارفين عليه وأن من لوازمه: ظهور الذل، وغض الطرف، وخفض الصوت، وسكون الأطراف، وحينئذٍ فلايبعد القول بحسن كشفه إذا كان ناشئاً عن تحقيق الخشوع بالقلب. ونص في الفتاوى العتابية على أنه لو فعله لعذر لايكره، وإلا ففيه التفصيل المذكور في المتن، وهو حسن. وعن بعض المشايخ أنه لأجل الحرارة والتخفيف مكروه، فلم يجعل الحرارة عذراً وليس ببعيد اهـ ملخصاً‘‘. 
 فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144003200400

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں