بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

 کیا یومِ عرفہ پوری دنیا میں ایک ہے؟


سوال

 کیا یومِ عرفہ پوری دنیا میں ایک ہے ؟ یا ہر ملک کے حساب سے ہوتاہے؟

جواب

سب سے پہلے یہ نکتہ واضح ہونا چاہیے کہ نو ذی الحجہ کو ’’یومِ عرفہ‘‘ کیوں کہا جاتا ہے، فقہاء نے اس تاریخ کو “یوم عرفہ” کہنے کی تین وجوہات ذکر کی ہیں:

 (۱) نو ذو الحجہ کو حج کرنے والے میدانِ عرفات میں وقوف کرتے ہیں؛ اس لیے اس دن کو ’’یومِ عرفہ” کہہ دیا جاتا ہے۔

(۲)حضرت جبرئیل علیہ السلام نے نو ذو الحجہ کے روز حضرت ابراہیم علیہ السلام کو حج کے مناسک سکھائے تھے؛ اس لیے اس دن کو مناسکِ حج کی معرفت حاصل ہونے کی بنا پر “یومِ عرفہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ 

 (۳)حضرت ابراہیم  نے آٹھ ذو الحجہ کی رات خواب میں اپنے بیٹے کو ذبح کرتے دیکھا، دن بھر اس خواب کے اللہ تعالی کی طرف سے ہونے یا نہ ہونےکے بارے میں آپ علیہ السلام سوچتے رہے، پھر نو ذو الحجہ کی رات یہی خواب نظرآیا تو  انہیں اس خواب کے اللہ تعالی کی طرف سے ہونے کا یقین ہوگیا، چنانچہ نو ذوالحجہ کے دن حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اس حقیقت کی معرفت حاصل ہونے کی بنا پر اس دن کو ”یومِ عرفہ“ کہا جاتا ہے۔

 مذکورہ تفصیل سے واضح ہوگیا کہ اس دن کو صرف وقوفِ عرفہ کی بنا پر ہی نہیں، دیگر وجوہات کی بنا پر بھی ” یومِ عرفہ“کا نام دیا گیا ہے۔ لہذا عرفہ کے دن کی فضیلت  جو احادیث میں وارد ہے وہ ہر شخص کو اس کے ملک کے وقت اور تاریخ کے حساب سے حاصل ہوگی، جس طرح باقی عبادا ت اور دیگر چیزوں میں اپنے ملک کے وقت اور تاریخ کا اعتبار ہوتا ہے، جیسے نمازوں  کے اوقات،سحر وافطار کے اوقات میں اسی ملک کا اعتبار ہوتا ہے جہاں انسان موجود ہو۔

تبيين الحقائق شرح كنز الدقائق (4/ 78):

"وَالْأَشْبَهُ أَنْ يُعْتَبَرَ؛ لِأَنَّ كُلَّ قَوْمٍ مُخَاطَبُونَ بِمَا عِنْدَهُمْ، وَانْفِصَالُ الْهِلَالِ عَنْ شُعَاعِ الشَّمْسِ يَخْتَلِفُ بِاخْتِلَافِ الْأَقْطَارِ، كَمَا أَنَّ دُخُولَ الْوَقْتِ وَخُرُوجَهُ يَخْتَلِفُ بِاخْتِلَافِ الْأَقْطَارِ، حَتَّى إذَا زَالَتْ الشَّمْسُ فِي الْمَشْرِقِ لَا يَلْزَمُ مِنْهُ أَنْ تَزُولَ فِي الْمَغْرِبِ، وَكَذَا طُلُوعُ الْفَجْرِ وَغُرُوبُ الشَّمْسِ، بَلْ كُلَّمَا تَحَرَّكَتْ الشَّمْسُ دَرَجَةً فَتِلْكَ طُلُوعُ فَجْرٍ لِقَوْمٍ وَطُلُوعُ شَمْسٍ لِآخَرَيْنِ وَغُرُوبُ لِبَعْضٍ وَنِصْفُ لَيْلٍ لِغَيْرِهِمْ، وَرُوِيَ أَنَّ أَبَا مُوسَى الضَّرِيرَ الْفَقِيهَ صَاحِبَ الْمُخْتَصَرِ قَدِمَ الْإِسْكَنْدَرِيَّة، فَسُئِلَ عَمَّنْ صَعِدَ عَلَى مَنَارَةِ الْإِسْكَنْدَرِيَّةِ فَيَرَى الشَّمْسَ بِزَمَانٍ طَوِيلٍ بَعْدَمَا غَرَبَتْ عِنْدَهُمْ فِي الْبَلَدِ أَيَحِلُّ لَهُ أَنْ يُفْطِرَ؟ فَقَالَ: لَا، وَيَحِلُّ لِأَهْلِ الْبَلَدِ؛ لِأَنَّ كُلًّا مُخَاطَبٌ بِمَا عِنْدَه".فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012200252

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں