بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا پہلی بیوی کی حیثیت دوسری کی بنسبت زیادہ ہے؟


سوال

میں نے آج سے دس سال پہلے دوسری شادی کی تھی،  مجھے تفصیل سے معلوم کرنا ہے کہ قرآن و شریعت کے مطابق دو شادیوں کے حوالے سے کیا حکم ہے؟  میری پہلی بیوی سے 4 بچے اور دوسری سے دو بیٹے ہیں،  میری پہلی بیوی اور اس کے بچے ہر جگہ خاندان میں جاتے ہیں، لیکن پہلی بیوی کی وجہ سے دوسری بیوی اور  بچوں کو خاندان میں وہ جگہ نہیں دے  پارہا جس کی وجہ دوسری بیوی ناخوش ہے، پھر جو ٹائم یا جتنا ٹائم میں پہلی بیوی بچوں کے پاس گزارتا ہوں دوسری کے پاس نہیں گزارتا،  پہلی کے پاس رات کو 11-12 تک پہنچ جاتا ہوں اور  دوسری کا ٹائم  میں میں نے خود سے 12سے آگے بڑھا کر 1:30-2:00 بجے کا کر دیا۔  اب ان سب معاملات کے بارے میں قرآن میں کیا حکم ہے ؟ رات کا ٹائم آگے کرنے کی وجہ سے میری دوسری بیوی سے بہت جھگڑا ہو رہا ہے۔

مجھے قرآن کی روشنی میں آگاہی دیجیے کیوں کہ پہلی بیوی کہتی ہے:  میں نے بغیر اجازت دوسری شادی کر کے بہت ظلم کیا ہے یا دوسری کرنا جائز ہی نہیں ہے اور نہ دوسری اور اس کے بچوں کا وہ مقام ہے جو پہلی اور اس کی بچوں کا ہے۔

راہ نمائی فرمائیں اور یہ بھی بتا دیجیے کہ دوسری بیوی کا شوہر پر کتنا حق ہے قرآن و سنت کی روشنی میں ؟

جواب

واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ نے شوہر کو یہ حق دیا ہے کہ وہ ایک وقت میں چار عورتوں کو اپنے نکاح میں رکھے بشرطیکہ وہ اپنی بیویوں میں عدل اور برابری کر سکے، اگر عدل اور برابری نہ کر سکتا ہو تو ایک پر اکتفا  کرنے کا حکم دیا  گیا ہے۔  نیز  شریعت میں دوسری شادی کے لیے پہلی بیوی سے اجازت لینے کو بھی ضروری قرار نہیں دیا گیا،  بلکہ اس میں کل اختیار شوہر ہی کا ہے، اگر وہ دوسری شادی کرنا چاہے تو یہ اس کا حق ہے۔  یاد رہے کہ یہ بات قطعاً غلط ہے کہ دوسری بیوی کی بنسبت پہلی بیوی کا حق زیادہ ہے اور پہلی بیوی کے بچوں کو دوسری بیوی کے بچوں پر برتری حاصل ہے،  بلکہ شوہر کے ذمہ یہ بات لازم ہے کہ وہ  دونوں بیویوں میں بالکل انصاف کرے، کسی ایک کو کسی دوسری پر ہرگز فوقیت نہ دے۔

شوہر پر لازم ہے کہ وہ  رات گزارنے میں، لباس اور اشیاء خورد و نوش کے فراہم کرنے  میں بیویوں میں خوب  برابری کرے، اگر کسی بھی چیز میں کسی ایک کی حق تلفی کرے گا تو سخت گناہ گار ہو گا۔ 

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (3/ 201):
"(يجب) وظاهر الآية أنه فرض، نهر (أن يعدل) أي أن لايجور (فيه) أي في القسم  بالتسوية في البيتوتة (وفي الملبوس والمأكول)

لہذا اگر آپ پہلی بیوی کو دوسری بیوی پر فوقیت دیتے ہیں اور دوسری بیوی اور اس کے بچوں کو ثانوی حیثیت دیتے ہیں تو ایسا کرنا شرعاً و اخلاقاً بالکل غلط ہے اور دوسری بیوی کی باری میں قصداً رات کو تاخیر سے جانا بھی غلط ہے، آپ اپنی دوسری بیوی کو اس کا پورا حق دیجیے اور جہاں تک ممکن ہو دونوں بیویوں میں مکمل برابری کے ساتھ زندگی گزاریں۔فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144012200352

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں