بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا نا محرم خواتین سے ہاتھ ملانا جائز ہے؟


سوال

نا محرم سے مصافحہ کے کیا احکام ہیں؟ اور اس کے ناجائز ہونے پر قرآن اور احادیث کے کیا دلائل ہیں؟  ایک ویڈیو کسی نے دکھائی ایک نام نہاد اسکالر کی وہ اس میں کہہ رہے ہیں کہ جائز ہے، اور رسول اللہ کا کہنا کہ میں عورتوں سے مصافحہ نہیں کرتا، یہ اپنی عادت بتائی ہے، اس سے مصافحہ کی حرمت ثابت نہیں ہوتی۔ بعض لوگوں میں اس سے پریشانی ہے۔ امید ہے آپ کے جواب سے تسلی ہو جائے گی!

جواب

واضح رہے کہ نا محرم خواتین سے ہاتھ  ملانا  تمام فقہاءِ کرام  کے نزدیک بالاتفاق حرام ہے، اور اس کی دلیل نصوص میں موجود ہے، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نا محرم خواتین کو چھونے پر  بھی شدید وعید سنائی ہے، (اور ہاتھ ملانے میں چھونا ہی نہیں، غیر محرم کا ہاتھ پکڑنا بھی پایا جاتاہے۔) جیساکہ طبرانی میں بروایت حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان منقول ہے:

’’اپنے سر کو لوہے کہ کنگن سے زخمی کرنا بہتر ہے اس بات سے کہ وہ نا محرم خاتون کو چھوئے‘‘۔

"عن معقل بن يسار رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لأن يُطعن في رأس أحدكم بمخيط من حديد خير له من أن يمسّ امرأة لاتحلّ له." رواه الطبراني". (صحيح الجامع 5045)

بخاری شریف کی روایت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے منقول ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کرکے مدینہ آنے والی خواتین کا سورہ تحریم کی آیت کے مطابق امتحان لیتے، ( کہ وہ کہیں اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی اور مقصد سے تو ہجرت کرکے نہیں آئیں) جب وہ امتحان پر پوری اتر آتیں تو رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان سے کہتے کہ میں نے تمہیں زبانی بیعت کرلی ہے، حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ بخدا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیعت میں بھی کسی خاتون کو ہاتھ نہیں لگایا۔

یہاں یہ ملحوظ رہے کہ اللہ تعالیٰ نے خود سورہ ممتحنہ میں آپ ﷺ کو  ایسی خواتین کو  بیعت کرنے کا حکم دیا ہے اور عرب میں بیعت کا مطلب یہی تھا کہ کسی بڑے کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر وفاداری کا پختہ عہد کیا جائے، جیساکہ صلح حدیبیہ کے موقع کی بیعت کا ذکر سورۃ الفتح میں موجود ہے، اور وہاں دستِ مبارک پر بیعت قرآنِ کریم کے اشارے اور روایات کے تواتر سے یقینی طور پر ثابت ہے۔ اس کے باوجود خواتین کو بیعت کرتے وقت صراحت فرمانا کہ میں نے تمہیں زبانی کلامی بیعت کیا اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا قسم اٹھا کر تصریح فرمانا کہ رسول اللہ ﷺ کے دستِ مبارک نے کبھی بھی کسی عورت کے ہاتھ کو نہیں چھوا۔ یہ سب باتیں صرف آپ ﷺ کی عادتِ مبارکہ کے بیان کے لیے نہیں ہیں، ورنہ حکمِ ربانی کی تعمیل میں، یا کم از کم بیانِ جواز کے لیے رسول اللہ ﷺ ایک مرتبہ تو اس پر عمل فرماتے۔ صحیح بخاری کی روایت کے یہ الفاظ بھی قابلِ غور ہیں کہ "مَا مَسَّتْ يَدُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَ امْرَأَةٍ إِلا امْرَأَةً يَمْلِكُهَا"، یعنی آپ ﷺ کے دستِ مبارک نے کسی عورت کے ہاتھ کو چھوا تک نہیں ہے، سوائے اس عورت کے جو آپ ﷺ کی مملوکہ ہو۔ کیا اتنی وضاحت صرف رسول اللہ ﷺ کی عادتِ مبارکہ کو بتانے کے لیے ہے؟

"عن عائشة رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَمْتَحِنُ مَنْ هَاجَرَ إِلَيْهِ مِنْ الْمُؤْمِنَاتِ بِهَذِهِ الآيَةِ بِقَوْلِ اللَّهِ: {يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ إِلَى قَوْلِهِ غَفُورٌ رَحِيمٌ} .. قَالَتْ عَائِشَةُ: فَمَنْ أَقَرَّ بِهَذَا الشَّرْطِ مِنْ الْمُؤْمِنَاتِ قَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قَدْ بَايَعْتُكِ كَلامًا، وَلا وَاللَّهِ مَا مَسَّتْ يَدُهُ يَدَ امْرَأَةٍ قَطُّ فِي الْمُبَايَعَةِ، مَا يُبَايِعُهُنَّ إِلا بِقَوْلِهِ: قَدْ بَايَعْتُكِ عَلَى ذَلِكِ". (رواه البخاري 4512)

صحیح مسلم کی روایت میں ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتھیلی نے کسی عورت (نا محرم) کی ہتھیلی کو نہیں پکڑا۔

"وفي رواية : أَنَّهُ يُبَايِعُهُنَّ بِالْكَلامِ .. وَمَا مَسَّتْ كَفُّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَفَّ امْرَأَةٍ قَطُّ". (صحيح مسلم 3470)

بخاری شریف کی ایک اور روایت میں ہے کہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ نے کسی خاتون کے ہاتھ کو نہیں پکڑا،  مگر اس خاتون کے جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملکیت حاصل تھی۔

"وفي رواية عنها رضي الله عنها قالت: مَا مَسَّتْ يَدُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَ امْرَأَةٍ إِلا امْرَأَةً يَمْلِكُهَا". (رواه البخاري 6674)

علاوہ ازیں صحیح سند کے ساتھ کئی کتب میں اس مضمون کی احادیث منقول ہیں کہ ’’ہاتھ بھی زنا کرتے ہیں اور ان کا زنا پکڑنا ہے‘‘. (سنن ابی داؤد، جلد 3 ص:484 حدیث: 2153۔ ط: دار الرسالۃ العالمیۃ) (صحیح مسلم: 2657۔ مسند احمد: 8526 و 10920)

ان احادیث میں ہاتھ سے چھونے اور پکڑنے کو بھی زنا کہا گیا ہے، غیر محرم سے ہاتھ ملانے میں پکڑنا بھی پایا جاتاہے۔ جواب کی ابتدا میں ذکر کردہ حدیث اور اس مذکور الصدر حدیث میں وارد ہونے والی اتنی شدید وعیدیں کسی ناجائز اور حرام کام پر ہی ہوسکتی ہیں، صرف ناپسندیدہ عمل پر بھی اتنی سخت وعید نہیں بیان کی جاتی۔ معلوم ہوا کہ غیر محرم سے مصافحہ گناہ اور ناجائز ہے۔ اور آپ ﷺ نے صرف اپنی عادت کی خلاف ورزی پر اتنی سخت وعیدیں نہیں بیان فرمائیں۔

الموسوعة الفقهية الكويتية (٣٧/ ٣٥٩ - ٢٦٠):

"وَأَمَّا مُصَافَحَةُ الرَّجُل لِلْمَرْأَةِ الأَْجْنَبِيَّةِ الشَّابَّةِ فَقَدْ ذَهَبَ الْحَنَفِيَّةُ وَالْمَالِكِيَّةُ وَالشَّافِعِيَّةُ وَالْحَنَابِلَةُ فِي الرِّوَايَةِ الْمُخْتَارَةِ، وَابْنُ تَيْمِيَّةَ إِلَى تَحْرِيمِهَا، وَقَيَّدَ الْحَنَفِيَّةُ التَّحْرِيمَ بِأَنْ تَكُونَ الشَّابَّةُ مُشْتَهَاةً، وَقَال الْحَنَابِلَةُ: وَسَوَاءٌ أَكَانَتْ مِنْ وَرَاءِ حَائِلٍ كَثَوْبٍ وَنَحْوِهِ أَمْ لاَ. وَاسْتَدَل الْفُقَهَاءُ عَلَى تَحْرِيمِ مُصَافَحَةِ الْمَرْأَةِ الأَْجْنَبِيَّةِ الشَّابَّةِ بِحَدِيثِ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ: كَانَتِ الْمُؤْمِنَاتُ إِذَا هَاجَرْنَ إِلَى رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُمْتَحَنَّ بِقَوْل اللَّهِ عَزَّ وَجَل: {يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ عَلَى أَنْ لاَ يُشْرِكْنَ بِاللَّهِ شَيْئًا وَلاَيَسْرِقْنَ وَلاَيَزْنِينَ} - الآْيَةَ - قَالَتْ عَائِشَةُ: فَمَنْ أَقَرَّ بِهَذَا مِنَ الْمُؤْمِنَاتِ فَقَدْ أَقَرَّ بِالْمِحْنَةِ، وَكَانَ رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَقْرَرْنَ بِذَلِكَ مِنْ قَوْلِهِنَّ قَال لَهُنَّ رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: انْطَلِقْنَ فَقَدْ بَايَعْتُكُنَّ، وَلاَ وَاللَّهِ مَا مَسَّتْ يَدُ رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَ امْرَأَةٍ قَطُّ غَيْرَ أَنَّهُ يُبَايِعُهُنَّ بِالْكَلاَمِ، قَالَتْ عَائِشَةُ: وَاللَّهِ مَا أَخَذَ رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النِّسَاءَ قَطُّ إِلاَّ بِمَا أَمَرَهُ اللَّهُ تَعَالَى، وَمَا مَسَّتْ كَفُّ رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَفَّ امْرَأَةٍ قَطُّ، وَكَانَ يَقُول لَهُنَّ إِذَا أَخَذَ عَلَيْهِنَّ: قَدْ بَايَعْتُكُنَّ كَلاَمًا. وَقَدْ فَسَّرَ ابْنُ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا الْمِحْنَةَ بِقَوْلِهِ: (وَكَانَتِ الْمِحْنَةُ أَنْ تُسْتَحْلَفَ بِاللَّهِ أَنَّهَا مَا خَرَجَتْ مِنْ بُغْضِ زَوْجِهَا وَلاَ رَغْبَةً مِنْ أَرْضٍ إِلَى أَرْضٍ وَلاَ الْتِمَاسَ دُنْيَا وَلاَ عِشْقًا لِرَجُلٍ مِنَّا بَل حُبًّا لِلَّهِ وَلِرَسُولِهِ. وَبِمَا رُوِيَ عَنْ مَعْقِل بْنِ يَسَارٍ أَنَّ رَسُول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَال: لأََنْ يُطَعْنَ فِي رَأْسِ أَحَدِكُمْ بِمِخْيَطٍ مِنْ حَدِيدٍ خَيْرٌ لَهُ مِنْ أَنْ يَمَسَّ امْرَأَةً لاَتَحِل لَهُ، د؛ وَوَجْهُ دِلاَلَةِ الْحَدِيثِ عَلَى التَّحْرِيمِ مَا فِيهِ مِنَ الْوَعِيدِ الشَّدِيدِ لِمَنْ يَمَسُّ امْرَأَةً لاَتَحِل لَهُ، وَلاَ شَكَّ فِي أَنَّ الْمُصَافَحَةَ مِنَ الْمَسِّ. وَاسْتَدَلُّوا أَيْضًا بِالْقِيَاسِ عَلَى النَّظَرِ إِلَى الْمَرْأَةِ الأَْجْنَبِيَّةِ، فَإِنَّهُ حَرَامٌ بِاتِّفَاقِ الْفُقَهَاءِ إِذَا كَانَ مُتَعَمَّدًا وَكَانَ بِغَيْرِ سَبَبٍ مَشْرُوعٍ، لِمَا وَرَدَ فِي النَّهْيِ عَنْهُ مِنَ الأَْحَادِيثِ الصَّحِيحَةِ، وَوَجْهُ الْقِيَاسِ أَنَّ تَحْرِيمَ النَّظَرِ لِكَوْنِهِ سَبَبًا دَاعِيًا إِلَى الْفِتْنَةِ، وَاللَّمْسُ الَّذِي فِيهِ الْمُصَافَحَةُ أَعْظَمُ أَثَرًا فِي النَّفْسِ، وَأَكْثَرُ إِثَارَةً لِلشَّهْوَةِ مِنْ مُجَرَّدِ النَّظَرِ بِالْعَيْنِ، قَال النَّوَوِيُّ: وَقَدْ قَال أَصْحَابُنَا كُل مَنْ حُرِّمَ النَّظَرُ إِلَيْهِ حُرِّمَ مَسُّهُ، بَل الْمَسُّ أَشَدُّ، فَإِنَّهُ يَحِل النَّظَرُ إِلَى أَجْنَبِيَّةٍ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَتَزَوَّجَهَا، وَلاَ يَجُوزُ مَسُّهَا".

نیز نا محرم خواتین کی طرف قصداً دیکھنا محلِ فتنہ ہونے کی وجہ سے نصوصِ شرعیہ کی بنا پر حرام ہے، (سورۃ النور) اور اس پر تمام فقہاء کا اتفاق ہے، اور یہ حرمت دلالۃ النص سے ثابت ہے، جب کہ نا محرم خاتون کو ہاتھ لگانا، یا مصافحہ کرنا انہی نصوص سے اقتضاء النص سے بطریقِ اولی ثابت ہے؛ کیوں کہ ہاتھ لگانے یا مصافحہ کرنے میں دیکھنے سے زیادہ فتنہ ہے، لہذا اس کی حرمت کا انکار کرنا نصوصِ شرعیہ کے انکار کو مستلزم، اور کم علمی و کم عقلی کی دلیل ہے۔

" عن أبي نجيح العرباض بن سارية رضي الله عنه قال : وعظنا رسول الله صلى الله عليه وسلم موعظةً وجلت منها القلوب ، وذرفت منها العيون ، فقلنا : يا رسول الله ، كأنها موعظة مودع فأوصنا ، قال : ( أوصيكم بتقوى الله ، والسمع والطاعة ، وإن تأمّر عليكم عبد؛ فإنه من يعش منكم فسيرى اختلافاً كثيراً، فعليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين المهديين، عضّوا عليها بالنواجذ، وإياكم ومحدثات الأمور ، فإن كل بدعة ضلالة.) رواه أبو داود والترمذي وقال: حديث حسن صحيح".فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008201589

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں