بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا مجبوری میں لے پالک کی ولدیت کے خانے میں منہ بولے باپ کا نام لکھوایا جا سکتا ہے؟


سوال

 مجھے میرے پھوپھی زاد بھائی  نے اپنی بیٹی گود دے دی ہے، جس کی عمرپانچ ماہ ہوچکی ہے،  میں اس کا سرپرست بن سکوں اور آئندہ اس کے  مطلوبہ کاغذات میں میرا نام بطورِ سرپرست آۓ، اس چیز کی معلومات لی  کہ آیا مملکتِ پاکستان میں ایسا  کوئی  قانون موجود ہے تو پتا چلا کہ جی ہاں  ہے،  عدالت کے جج صاحب ضابطے  کی کار روائی کے بعد ایک سند جاری کریں گے اور وہ سند بچی کے ب فارم کے حصول کے لیے ضروری ہے،  مؤرخہ 20 فروری کو اس کا  طریقہ کار معلوم  کر کےایک وکیل کےذریعے عدالت میں درخواست دی گئی، جس پر کہا  گیا کہ لینے والے اور دینے والے چاروں کے تحریری بیان جمع کرائیں جوکہ کروا دیے گئے،  پھر ایک  پیشی ہوئی،  مجھے بلایا گیا اور یہ کہا  گیا کہ دونوں خواتین کو جج کے سامنے پیش کریں جو کہ کردیا گیا،  اسی طرح اخبار میں اطلاعِ عام دینے کا کہا گیا جو کہ دے دی گئی،  چار الگ الگ تاریخوں میں بچی کے والد کو  بھی بلایاگیا جوحاضر ہوۓ،  غرض کہ آج تک  بلاوجہ اس کام کو طول دیا گیا اور اس ماہ کی 4 تاریخ کو کہا  گیا کہ بچی کی  ماں ایک  اور بار عدالت آئیں اور اس کی تاریخ آج دی گئی اور ساتھ میں یہ کہا  گیا کہ  اب آپ  کو مزید انتظار نہیں کرنا ہوگا،  بس 8  مئی کو والدہ آجائیں آج  بچی کے والد والدہ اور میں عدالت حاضر ہوۓ،  ہم تین میں سے کسی  سے کوئی بات نہ کی  نہ پوچھی،  اور یہ کہا گیا کہ  دن بارہ بجے ہم حکم  سنائیں گے،  اور بارہ بجے حکم سنایا کہ عدالت بچی کا  سرپرست مجھے مقرر نہیں کر سکتی،  یہ ایک حیران کن  اورتکلیف دہ فیصلہ تھا،  جس کی کوئی  وجہ بھی نہیں بن رہی،  میں حکومت کے  اس نظامِ عدالت سے شدید نالاں ہو کر  اس بچی کا بے فارم اپنے نام سے ہی بنوارہا ہوں،  بچی گود لی ہوئی  ہے،  یہ بات میرے متعلقین میں سب  کے علم میں اور عرصہ پندرہ سال بے اولاد رہنے اور ملک بھر سے طبی علاج کروانے  کے  بعد اگر وہ ماں باپ اپنا بچہ مجھے میری کفالت میں دینے پر راضی ہیں تو عدالت کو  کیا اعتراض ہے؟  آخر کار میں کاغذات  کا  پیٹ بھرنے کے لیے ایسا  کر رہا ہوں،  باقی بچی سمیت مجھ سے منسلک ہر فرد جانے گا  کہ میں بچی کا باپ نہیں ہوں۔ آں جناب راہ نمائی  فرمائیں، اس ملک کی عدالت میں انصاف رقم کے عوض ملتا ہے اور میں اس کے حق میں نہیں ہوں۔

جواب

قانونی کاروائی کر لینا ایک احتیاطی پہلو ہے، تا کہ آئندہ کسی قسم کے مسائل کا سامنا نہ کرنا پڑے، لیکن اگر بھرپور کوشش کے باوجود عدالت اس بچی کی سرپرستی آپ کو نہیں دیتی تو بھی شرعاً  آپ کے لیے جائز ہے کہ اس بچی کو گود لیں، البتہ ولدیت کے خانہ میں اپنے نام کے بجائے اصلی باپ کا نام لکھوانا ہی ضروری ہو گا، ویسے بھی جب بچی سمیت سب کو پتا ہوگا کہ آپ اس کے والد نہیں ہیں، اور اصل والد کا سب کو علم ہوگا تو بچی کی ولدیت کے خانے میں اصل والد کا نام لکھوانے سے کیا امر مانع ہے!! 

جہاں تک تعلیمی اداروں یا دیگر اداروں کے کاغذات کا تعلق ہے وہاں آپ سرپرست کے خانے میں اپنا اندراج کروادیجیے، تاکہ تعلیمی اور دیگر امور میں بار بار اصل والدین کو زحمت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008200829

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں