بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا قیام اللیل اعتکاف کا لازمی جز ہے؟


سوال

قیام اللیل کی جو صورت ہے جامعہ کے فتوے میں موجود ہے تو یہ کیا اس صورت میں بھی جائز ہوگی جب قیام اللیل کو اعتکاف کاجز لازم سمجھا جائے یا بہت زیادہ ضروری سمجھا جائے؟

جواب

اعتکاف کا اصل مقصد دنیاوی مشاغل سے دور ہوکر یک سوئی کے ساتھ اللہ کی عبادت کرنا، اور  اللہ کو راضی کرنے کی کوشش کرنا ہے، جس میں فرائض، سنن و نوافل کی ادائیگی بھی داخل ہے۔  تاہم کسی بھی عمل کو اعتکاف کا لازمی  جز سمجھنا  درست نہیں، نیز قیام اللیل (تہجد ) کو اعتکاف کا لازمی جز سمجھنا بھی درست نہیں۔ 

منتظمینِ مسجد اور امام صاحب کو چاہیے کہ جب تمام معتکفین اور شرکاء خوش دلی سے تہجد کے وقت تراویح کی ادائیگی پر راضی نہ ہوں تو عشاء کے متصل بعد دستور کے مطابق تراویح کی مکمل نماز ادا کرنے کا اہتمام کریں۔ اور اس وقت کسی شرعی عذر کے بغیر  تراویح کی نماز چھوڑنا گناہ ہے، تراویح کی نماز سنتِ مؤکدہ ہے، اعتکاف میں اس کی تاکید مزید بڑھ جائے گی، معتکف کے لیے مسجد کے اندر رہتے ہوئے تراویح کی نماز ترک کرنا بہت ہی محرومی کی بات ہوگی۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144008201794

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں