بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا شریک اجیر بن سکتا ہے ؟


سوال

شریک کو اجیر بنانا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

ایک شریک کا دوسرے شریک کے لیے اجیر بننا درست نہیں ہے،لہذا کاروبار میں شریک شخص کے لیے مشترکہ کاروبار میں کام کرکے اپنے طے شدہ نفع کے  علاوہ الگ سے تن خواہ لینا جائز نہیں ہے، چاہے دیگر پارٹنر (شریک) اس پر راضی ہی کیوں نہ ہوں۔

البتہ اس کی جائز صورت یہ ہوسکتی ہے کہ جو پارٹنر (شریک) کام کرتا ہے ، نفع میں اس کا حصّہ باہمی رضامندی سے دوسرے (کام نہ کرنے والے) پارٹنر کے مقابلہ میں کچھ زیادہ مقرر کر لیا جائے۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"ولو استأجره ليحمل له نصف هذا الطعام بنصفه الآخر لا أجر له أصلا لصيرورته شريكا۔۔۔ (ولو) استأجره (لحمل طعام) مشترك (بينهما فلا أجر له) ؛ لأنه لا يعمل شيئا لشريكه إلا ويقع بعضه لنفسه فلا يستحق الأجر (كراهن استأجر الرهن من المرتهن) فإنه لا أجر له لنفعه بملكه۔۔۔ (قوله: فلا أجر له) أي لا المسمى ولا أجر المثل زيلعي؛ لأن الأجر يجب في الفاسدة إذا كان له نظير من الإجارة الجائزة وهذه لا نظير لها إتقاني، وظاهر كلام قاضي خان في الجامع أن العقد باطل؛ لأنه قال: لا ينعقد العقد".  (کتاب الاجارۃ، باب الاجارۃ الفاسدۃ، ج:۶ ؍ ۵۷ ،۵۸ ،۶۰ ، ط:سعید )

و فیہ ایضاً:

"وإن شرطا الربح للعامل أكثر من رأس ماله جاز أيضاً على الشرط ويكون مال الدافع عند العامل مضاربة، ولو شرطا الربح للدافع أكثر من رأس ماله لايصح الشرط ويكون مال الدافع عند العامل بضاعة لكل واحد منهما ربح ماله". (کتاب الشرکۃ، مطلب فی شرکۃ العنان، ج:۴ ؍۳۱۲، ط:سعید )

امداد الاحکام میں ہے:

" کیا شریک اجیر بن سکتا ہے؟ اور اس کے جواز کی کوئی صورت ہے یا نہیں؟ الخ

جواب:۱۔درست نہیں۔

جواب:۲۔ان کے واسطے نفع میں زیادہ حصّہ مقرر کردیا جائے، مثلا ان کی رقم ۴؍۱  کی نسبت رکھتی ہے، اور ان کو نفع میں سے ۳؍۱ دیا جائے تو یہ جائز ہے"۔ (کتاب الاجارۃ، ج:۳ ؍۶۱۴، ۶۱۵، دارالعلوم کراچی ) فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144007200257

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں