بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 رمضان 1445ھ 28 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کیا سر کے بالوں منڈانا مکروہ ہے؟


سوال

ہمارے استاد نے فرمایا کہ میری تحقیق کے مطابق سر کے بال منڈوا نا مکروہ ہے، کیا ایسا ہی ہے؟

جواب

مردوں کے لیے سر کے پورے بال رکھنا مسنون ہے، اور ان کو منڈانا بھی جائز ہے، مکروہ نہیں ہے۔

احادیثِ مبارکہ  سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ سر پر بال رکھنے کا اہتمام فرمایا کرتے تھے، عام حالت میں کانوں کی لو تک بال رکھا کرتے اور کبھی وہ بڑھ کر  کندھے کے قریب بھی پہنچ جایا کرتے، نبی کریم ﷺ سے حج اور عمرہ کے علاوہ سر منڈانا ثابت نہیں ہے۔

لیکن بالوں کو منڈانا بھی جائز ہے، بلکہ بعض فقہاء کے نزدیک سنت ہے۔ جس کی تفصیل درج ذیل ہے:

1۔۔  ملاعلی قاری رحمہ اللہ  شرح مشکاۃ میں اس حدیث کہ ” بال پورے حلق کرو، یا پورے چھوڑدو“ کے ذیل میں تحریر فرماتے ہیں:

”اس حدیث میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ حج اور عمرہ کے علاوہ  بھی سر منڈانا جائز ہے، اور آدمی کو سرمنڈانے اور بال رکھنے میں اختیار ہے“۔

"فيه إشارة إلى أن الحلق في غير الحج والعمرة جائز، وأن الرجل مخير بين الحلق وتركه، لكن الأفضل أن لايحلق إلا في أحد النسكين كما كان عليه صلى الله عليه وسلم مع أصحابه - رضي الله عنهم - وانفرد منهم علي - كرم الله وجهه - كما سبق أول الكتاب". (مرقاة 7/2818)

2۔۔ امام غزالی رحمہ اللہ احیاء العلوم میں تحریر فرماتے ہیں جو شخص صفائی کی غرض سے سر کے تمام بالوں کو حلق کرے  تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، اور اس کے چھوڑنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اس شخص کے لیے جو  اس میں تیل اور کنگھی کرسکتا ہو۔

 "وَقَالَ الْغَزالِيّ فِي الْإِحْيَاء: لَا بَأْس بحلق جَمِيع الرَّأْس لمن أَرَادَ التَّنْظِيف، وَلَا بَأْس بِتَرْكِهِ لمن أَرَادَ أَن يدهن ويترجل". (عمدة القاري  ۔22/ 58)

3۔۔ علامہ عینی رحمہ اللہ نے  شرح بخاری میں نقل کیا ہے کہ ’’حافظ ابن عبد البر رحمہ اللہ نے پورے سر کے بال منڈانے کی اباحت پر اجماع کا دعویٰ کیا ہے، اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے بھی ایک یہی روایت ہے“۔

"وَادّعى ابْن عبد الْبر الْإِجْمَاع على إِبَاحَة حلق الْجَمِيع، وَهُوَ رِوَايَة عَن أَحْمد". (عمدة القاري  ۔22/ 58)

4۔۔ محدث دہلوی رحمہ اللہ نے شرح صراط مستقیم میں فرمایا ہے کہ ’’سر کے بال  منڈانا مرد حضرات کے لیے بالاتفاق جائز ہے، اور جو لوگ بالوں میں تیل لگانے اور درست رکھنے کا اہتمام کرتےہیں ان کے لیے (سنت کے مطابق) بال رکھنا افضل ہے‘‘ ۔(از ہدایہ النور فیما یتعلق بالاظفار والشعور)

5۔۔ ”منتھی الارادات“ میں فقہ حنبلی کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ ’’سر پر بال رکھنا سنت ہے، مگر جب اس کی نگاہ داشت نہ ہوسکے تو  پھر سنت نہیں ہے‘‘۔(حوالہ بالا)

6۔۔علامہ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہمارے علماء فرماتے ہیں : ’’اگر کسی شخص کے لیے  بال رکھ کر اس میں تیل لگانا اور خیال کرنا مشکل ہو تو  اس کے لیے حلق مستحب ہے، اور جس کے لیے  بالوں کا خیال رکھنا مشکل نہ ہو  ان کے لیے بال رکھنا افضل ہے‘‘۔

" قال أصحابنا: حلق الرأس جائز بكل حال، لكن إن شق عليه تعهده بالدهن والتسريح استحب حلقه، وإن لم يشق استحب تركه". (شرح النووي على مسلم (7/ 167)

7۔۔ امام احمد رحمہ اللہ سے منقول ہے کہ :”اگر ہم بالوں کی نگاہ داشت کرسکتے  تو رکھ لیا کرتے ، لیکن بالوں کی پاس داری میں تکلیف ومشقت ہے۔

"قَالَ أَحْمَدُ: هُوَ سُنَّةٌ، وَلَوْ نَقْوَى عَلَيْهِ اتَّخَذْنَاهُ، وَلَكِنْ لَهُ كُلْفَةٌ وَمُؤْنَة". (شرح منتهى الإرادات = دقائق أولي النهى لشرح المنتهى (1/ 44)

8۔۔ نیز  بعض علماءِ کرام کے نزدیک بال منڈانا اور رکھنا دونوں سنت ہیں، بالخصوص ہمارے فقہاءِ کرام نے اس کو سنت کہا ہے، اور ہر جمعہ بالوں کے حلق کو مستحب کہا گیا ہے۔

" وأما حلق رأسه ففي الوهبانية "وقد قيل:حلق الرأس في كل جمعة ... يحب وبعض بالجواز يعبر".
(قوله: وأما حلق رأسه إلخ) وفي الروضة للزندويستي: أن السنة في شعر الرأس إما الفرق أو الحلق. وذكر الطحاوي: أن الحلق سنة، ونسب ذلك إلى العلماء الثلاثة". 
(فتاوی شامی ۔ (6/ 407)

9۔۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ  آپ ﷺ کا یہ ارشاد نقل کرکے کہ’’جنابت کے غسل میں اگر ایک بال بھی خشک رہ گیا تو اس کا غسل نہیں ہوگا۔۔۔‘‘الخ  فرماتے ہیں: اسی وجہ سے میں نے اپنے  بالوں سے دشمنی کرلی ، یعنی انہیں خوب جڑ سے کاٹتا ہوں،   اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہمیشہ سر کے بال حلق کیا کرتے تھے، علامہ طیبی رحمہ اللہ نے اس سے استدلال کیا ہے کہ جس طرح بال رکھنا سنت ہے اسی طرح بالوں کو خوب اچھی طرح  کاٹنا بھی سنت  ہے، ایک تو اس لیے  کہ آپ ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس عمل کو دیکھا اور اس پر سکوت  فرمایا،  گویا یہ آپ ﷺ کی تقریر ہے، اور اہلِ علم جانتے ہیں کہ قول اور فعل کی طرح تقریرِ رسول اللہ ﷺ بھی حدیث ہی ہوتی ہے۔ نیز خود حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ خلفائے راشدین میں سے ہیں جن کی سنتوں کے اتباع کا بھی ہمیں حکم ہے۔

"((وكان علي رضي الله عنه يجز شعره))، وفيه أن المداومة على حلق الرأس سنة؛ لأنه صلى الله عليه وسلم قرره علي ذلك، ولأنه رضوان الله عليه من الخلفاء الراشدين المهديين الذين أمرنا بإتباع سنتهم، والعض عليها بالنواجذ". (شرح المشكاة للطيبي الكاشف عن حقائق السنن (3/ 814)

تاہم ملاعلی قاری رحمہ نے اس  کو سنت  کہنے پر اشکال کیا ہے اور حلق کو رخصت کہا ہے۔

"ولايخفى أن فعله كرم الله وجهه إذا كان مخالفاً لسنته صلى الله عليه وسلم وبقية الخلفاء من عدم الحلق إلا بعد فراغ النسك يكون رخصةً لا سنةً، والله تعالى أعلم. ثم رأيت ابن حجر نظر في كلام الطيبي، وذكر نظير كلامي، وأطال الكلام فيه". (مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (2/ 430)

لیکن یہ بات بھی ملحوظ رہنی چاہیے کہ حضور ﷺ کے وصال کے بعد بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ کا یہی معمول رہا اور کسی بھی صحابی رضی اللہ عنہ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس فعل پر کبھی نکیر نہیں کی۔

10۔۔ مفتی محمد سعد اللہ لاہوری (1266ھ) اپنے رسالہ ”ہدایہ النور فیما یتعلق بالاظفار والشعور‘‘  میں اس پر تحریر فرماتے ہیں جس کا حاصل یہ ہے کہ ”جب حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا فعل حضور ﷺ کے روبرو آپ ﷺ کی ممانعت نہ فرمانے کی بنا پر تقریرِ نبی میں داخل ہوا تو یہ ضرور سنت کہلائے گا، زیادہ سے زیادہ صرف یہ کہا جاسکتا ہے اس کے برعکس سر پر بال رکھنا بھی سنت  ہے،  یہی وجہ ہے کہ ’’فتاوی عالمگیری‘‘  میں ’’روضہ زندویسی‘‘ کے حوالہ سے نقل کیا گیا ہے: 

’’وفي روضه الزندويستي: أن السنة في شعر الرأس إما الفرق وإما الحلق، وذكر الطحطاوي: الحلق سنة، ونسب ذلك إلى العلماء الثلاثة، كذا في التتارخانية". (الفتاوى الهندية (5/ 357)۔ انتھی۔

وفی حاشية الطحطاوي على مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح (ص: 525):
"وأما حلق الرأس ففي التتارخانية عن الطحاوي: أنه سن عند أئمتنا الثلاثة اهـ وفي روضة الزند ويستى: السنة في شعر الرأس إما الفرق وإما الحلق اهـ يعني حلق الكل إن أراد التنظيف، أو ترك الكل ليدهنه ويرجله ويفرقه؛ لما في أبي داود والنسائي عن ابن عمران أن رسول الله صلى الله عليه وسلم رأى صبياً حلق بعض رأسه وترك بعضه، فقال صلى الله عليه وسلم: "احلقوه كله أو اتركوه كله". وفي الغرائب: يستحب حلق الشعر في كل جمعة". 
 فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144007200137

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں