بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کھانا کھاتے وقت سلام کرنے یا سلام کا جواب دینے کا حکم


سوال

کھاتے وقت سلام کرنا کیسا ہے؟  اور کھاتے وقت سلام کا جواب دینا کیسا ہے؟  دلیل کے ساتھ جواب مطلوب ہے!

جواب

 فقہاءِ کرام  نے لکھا ہے کہ کھانا کھانے والے کو سلام کرنا مکروہ ہے، ہاں! اگر گزرنے والا بھوکا ہو  اور اس کو یہ معلوم ہو کہ اس کو کھانے پر بلا لیا جائے گا یعنی کھانے کے شرکاء خوشی سے اسے کھانے میں شریک کرلیں گے تو ایسی صورت میں سلام کرنا مکروہ نہیں ہے۔ اور کھانے والا اگر کھانے میں ایسے مصروف ہوکہ سلام کرنے کی صورت میں کھانے میں حرج ہو یا لقمہ حلق میں اٹک سکتاہو تو اسے سلام نہیں کرنا چاہیے، اس کے علاوہ حالت میں کھانے والا سلام بھی کرسکتاہے اور سلام کا جواب بھی دے سکتا ہے، اس میں کراہت نہیں ہے، البتہ اگر کھانا کھاتے ہوئے کوئی دوسرا سلام کردے تو سلام کا جواب دینا واجب نہیں ہوگا، بلکہ اس کی سہولت اور مرضی پر موقوف ہوگا۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 415):

"ويكره السلام على الفاسق لو معلناً وإلا لا، كما يكره على عاجز عن الرد حقيقةً كآكل، أو شرعاً كمصل وقارئ، ولو سلم لايستحق الجواب اهـ

 (قوله: كآكل) ظاهره أن ذلك مخصوص بحال وضع اللقمة في الفم والمضغ وأما قبل وبعد فلايكره لعدم العجز، وبه صرح الشافعي، وفي وجيز الكردري: مر على قوم يأكلون إن كان محتاجاً وعرف أنهم يدعونه سلم وإلا فلا اهـ. وهذا يقضي بكراهة السلام على الآكل مطلقاً إلا فيما ذكره ط".  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144010200479

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں