بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 رمضان 1445ھ 19 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کھانا پینا مشترک ہونے کی صورت میں چچازاد کو زکات دینا / قرض پر زکات کا حکم


سوال

 (1) میں سونے کی زکات نکالتا ہوں۔میرے ساتھ گھر میں چچا کی فیملی بھی ہے ، ہمارا سب کچھ مشترک ہے  یہاں  تک کہ چولہا بھی مشترک ہے، اور کھانا پینا بھی ایک ساتھ کرتے ہیں  تو کیامیں اس سونے کی زکات کے پیسوں میں سے کچھ رقم اپنے چچا کے بیٹوں کو دے سکتا ہوں، جب کہ وہ یتیم ہیں  اور زکات کے مستحق ہیں؟

(2) اگر کچھ رقم کسی کو قرض دی ہو،  بالفرض ایک لاکھ روپے قرض دیے ہوں، اور مقروض رقم واپس کرنے میں ٹال مٹول سے کام لیتا ہو اور پھر چھ یا سات سال بعد قرض واپس کرے تو کیا ان گزشتہ چھ سات سالوں کی زکات ادا کرنا اس کے ذمے واجب ہے؟

جواب

1۔۔۔  چچا کے بیٹے اگر زکات  کے مستحق ہیں تو ان کو زکات دینا جائز ہے، لیکن اگر  آپ کا اور آپ کے چچا کے بیٹوں کا  کھانا،  پینا اور چولہا سب  مشترک ہے  تو ان کو زکات  دینا درست نہیں ہے، وجہ یہ ہے کہ تمام اخراجات مشترک ہونے کی صورت میں اگر چچا کے بیٹے اس رقم کو گھریلو خرچہ میں استعمال کریں گے تو اس میں یہ شبہ ہے خود زکات دینے والا اپنی زکات سے ایک گونہ منتفع ہورہا ہے اور یہ جائز نہیں ہے.اسی طرح  فقیر کو زکات دینے کے بعد غنی کے لیے اس زکات کو اباحت کے طور پر استعمال کرنا جائز نہیں ہوتا، الا یہ کہ وہ فقیر مالک بنا کر غنی کو رقم یا کوئی چیز دے، اور مشترک کھانے کی صورت  میں  آپ کے چچا کے بیٹے زکات کی رقم استعمال کریں گے اور اسی  زکات کے مال سے آپ کھائیں گے تو یہ ان کی طرف سے اباحت ہے اور آپ کے لیے اس کا استعمال کرنا جائز نہیں ہوگا، ہاں البتہ اگر چچا کے بیٹے  اس زکات کی رقم کو گھر کے مشترکہ اخراجات میں خرچ نہ کریں، بلکہ اپنی کسی ذاتی ضرورت میں خرچ کریں تو اس صورت میں زکات دینا جائز ہوگا.

بدائع الصنائع (2/ 49):
"ومنها: أن لا تكون منافع الأملاك متصلةً بين المؤدي وبين المؤدى إليه؛ لأن ذلك يمنع وقوع الأداء تمليكاً من الفقير من كل وجه، بل يكون صرفاً إلى نفسه من وجه، وعلى هذا يخرج الدفع إلى الوالدين وإن علوا والمولودين وإن سفلوا؛ لأن أحدهما ينتفع بمال الآخر".

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (6/ 116):
"(وطاب لسيده وإن لم يكن مصرفاً) للصدقة (ما أدى إليه من الصدقات فعجز)؛ لتبدل الملك، وأصله حديث بريرة: «هي لك صدقة ولنا هدية»، (كما في وارث) شخص (فقير مات عن صدقة أخذها وارثه الغني، و) كما في (ابن سبيل أخذها ثم وصل إلى ماله وهي في يده) أي الزكاة، وكفقير استغنى، وهي في يده فإنها تطيب له، بخلاف فقير أباح لغني أو هاشمي عين زكاة أخذها لا يحل؛ لأن الملك لم يتبدل. 

(قوله: لأن الملك لم يتبدل)؛ لأن المباح له يتناوله على ملك المبيح. ونظيره المشتري شراءً فاسداً إذا أباح لغيره لا يطيب له، ولو ملكه يطيب. هداية".
2۔۔آپ نے جو رقم قرض پر دی ہوئی ہے اگر آپ کو اس کی واپسی کی امید ہے یا اس قرض کا وصول کرنا آپ کے لیے ممکن ہے تو اس رقم  کی زکات آپ کے ذمہ لازم ہے، خواہ ابھی ادا کریں یا  جب  آپ اپنا قرض وصول کر لیں گے اس وقت ادا کریں، البتہ وصولی کے وقت ادا کرنے کی صورت میں اس رقم کی  گزشتہ سالوں کی زکات بھی ادا کرنا ہوگی ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) اعلم أن الديون عند الإمام ثلاثة: قوي، ومتوسط، وضعيف؛ (فتجب) زكاتها إذا تم نصاباً وحال الحول، لكن لا فوراً بل (عند قبض أربعين درهماً من الدين) القوي كقرض (وبدل مال تجارة) فكلما قبض أربعين درهماً يلزمه درهم.

 (قوله: عند قبض أربعين درهماً) قال في المحيط؛ لأن الزكاة لا تجب في الكسور من النصاب الثاني عنده ما لم يبلغ أربعين؛ للحرج، فكذلك لا يجب الأداء ما لم يبلغ أربعين؛ للحرج. وذكر في المنتقى: رجل له ثلاثمائة درهم دين حال عليها ثلاثة أحوال فقبض مائتين، فعند أبي حنيفة يزكي للسنة الأولى خمسةً، وللثانية والثالثة أربعةً أربعةً من مائة وستين، ولا شيء عليه في الفضل؛ لأنه دون الأربعين". اهـ. (2/ 305،  کتاب الزکاۃ،باب زکاۃ المال، ط: سعید)  فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143909200517

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں