بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

کمپنی کے ملازم کا کمپنی کا کام کرواکر اپنا کمیشن بل میں لکھوانا


سوال

میں ایک کمپنی میں ملازمت کرتاہوں، مجھے مال خریدنے کے لیے ایک ریٹ دیتے ہیں کہ اس پر مال خریدیں، مثلاً: 50 پر کلو گرام۔  کیا میں یہ کرسکتا ہوں کہ 49روپے میں خرید کر کمپنی کو 50کا دے دو ں، یہ ایک روپے اپنے لیے رکھنا کیسا ہے؟

جواب

آپ کمپنی کے ملازم ہیں، اور اس کے وکیل کی حیثیت سے سامان خریدتے ہیں ، تو آپ کو جتنے کی چیز ملے گی اتنے کا بتانا لازم ہے، اپنے  لیے پیسے رکھنا جائز نہیں۔

درر الحکام في شرح مجلة الأحکاممیں ہے:

" أما لو قال الموكل: اشتر لي الدار الفلانية بعشرة آلاف درهم واشترى الوكيل بأقل من عشرة آلاف، فيكون قد اشترى للموكل. وقد عينت الدار التي ستشرى (بقيد الفلانية)؛ لأنه إذا لم تعين كقولك: (اشتر لي داراً في الحي الفلاني بعشرة آلاف درهم) واشترى الوكيل داراً في ذلك الحي بأقل من عشرة آلاف درهم، فإذا كانت قيمة تلك الدار عشرة آلاف درهم نفذ الشراء في حق الموكل. أما إذا كانت قيمتها أقل من عشرة آلاف درهم فلاينفذ في حق الموكل". (الکتاب الحادي عشر الوکالة، الباب الثالث، الفصل االثاني، المادة:۱۴۷۹ ،ج:۳؍۵۸۷،ط:دارالجیل)

وفیه أیضاً:

"(إذا شرطت الأجرة في الوكالة وأوفاها الوكيل استحق الأجرة، وإن لم تشترط ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعاً. فليس له أن يطالب بالأجرة) يستحق في الإجارة الصحيحة الأجرة المسمى. وفي الفاسدة أجر المثل... لكن إذا لم يشترط في الوكالة أجرة ولم يكن الوكيل ممن يخدم بالأجرة كان متبرعا، وليس له أن يطلب أجرة. أما إذا كان ممن يخدم بالأجرة يأخذ أجر المثل ولو لم تشترط له أجرة". (الکتاب الحادي عشر الوکالة، الباب الثالث، الفصل االأول، المادة:۱۴۶۷ ،ج:۳؍۵۷۳،ط:دارالجیل)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144007200523

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں