یہ بھی اوپر والاہی انشورنس سے متعلق سوال ہے کہ از خودکمپنی ملازمین کوسہولت دے اورتنخواہ میں سے بھی کچھ نہ کاٹاجائے توجائزہے یانہیں؟البتہ اس میں دارالعلوم دیوبند کے ایک فتوی کالنک دیاگیاہے کہ انہوں نے اس کوجائزکہاہے کیونکہ ملازمین کی تنخواہوں سے رقم نہیں کاٹی جاتی ۔
آپ کی طرف سے دیئے گیے لنک نہیں کھل سکے۔
انشورنس کامروجہ طریقہ کارشرعاً ناجائزوحرام ہے،اس لیے کہ وہ اپنی اصل وضع کے اعتبارسے یاتوقمار(جوا)ہے اوراگرکل رقم مع منافع کے حاصل ہوتوربوا(سود)ہے۔جوااورسودکی حرمت قرآن وحدیث سے ثابت ہےاورجولوگ جوایاسودی لین دین میں ملوث ہیں ان سے متعلق قرآن وحدیث میں سخت وعیدیں ذکر کی گئی ہیں۔لہذا کمپنی کی طرف سے کسی ادارہ سے اپنےملازمین کے لیے انشورنس معاہدہ شرعاً درست نہیں۔ملازمین اس صورت میں صرف اسی قدرفائدہ اورمیڈیکل وغیرہ کی سہولت اٹھاسکتے ہیں جس قدرکمپنی نے اپنے ملازم کے لیے انشورنس کی مدمیں رقم جمع کروائی ہے۔اس سے زائد فائدہ اٹھاناجائزنہیں ہوگا۔بقدررقم اس سہولت سے استفادہ کرسکتے ہیں۔
فتوی نمبر : 143609200046
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن