بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کلائی میں دھاگہ، کڑا یا زنجیر وغیرہ باندھنا


سوال

آج کل بہت سارے مسلم نوجوان کلائی پر کالا دھاگا پہنتے ہیں، کوئی ہرا دھاگا تو کوئی لال دھاگا بھی پہنتا ہے، اس کا کیا حکم ہے؟

نیز بعض لوگ کلائی پر زنجیر یا کڑا پہنتے ہیں، اس کا کیا حکم ہے؟

جواب

1: ہاتھ میں دھاگہ  یازنجیر باندھنا  اگر کسی نفع کی امید یا نقصان سے بچاؤ کی نیت وعقیدہ سے ہو تو  اس عقیدہ کے ساتھ ہاتھوں میں دھاگہ یا زنجیر کا باندھنا درست نہیں ؛  اس لیے کہ  نفع ونقصان پہنچانے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے ، اللہ ہی بھلائیاں عطا کرتے ہیں اور مصیبتوں سے بچاتے ہیں ،بلکہ بعض فقہاء نے تو اسے افعالِ کفر میں شمار کیا ہے ، زمانہ جاہلیت میں لوگ گردن میں یا ہاتھ میں اپنے عقیدہ کے مطابق خود کو مصیبت سے بچانے کے لیے دھاگے باندھا کرتے تھے ، ان دھاگوں کو ''رتیمہ'' کہا جاتا ہے ، فقہاء نے لکھا ہے کہ: یہ ممنوع ہے، اور بعض فقہاء نے تو اسے کفریہ کاموں میں شمار کیا ہے :

'' ثم رتیمۃ... ھی خیط کان یربط فی العنق أو فی الید فی الجاہلیۃ لدفع المضرة عن أنفسہم علی زعمہم ہو منہ عنہ وذکر فی حدود الیمان أنہ کفر '' (رد المحتار ، ج:۶، ص: ۳۶۳)

اور اگر یہ عمل فیشن اور آرائش کے طور پر ہو تب بھی درست نہیں۔

 2: سونے اور لوہے کے کسی بھی زیور کا استعمال مرد کے لیے جائز نہیں ، چاندی کی بھی صرف انگوٹھی استعمال کی جاسکتی ہے ، زنجیر نہیں پہنی جاسکتی ہے۔

نیز اس   میں عورتوں کی مشابہت بھی ہے ؛ کیوں کہ یہ عورتوں کے لیے مقام زینت ہے نہ کہ مردوں کے لیے، اور عورتوں کی مشابہت اختیار کرنے والے مردوں پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے  لعنت فرمائی ہے ، (صحیح البخاری ، کتاب اللباس ، باب المتشبہون بالنساء والمتشبہات بالرجال ، حدیث نمبر : ٥٤٣٥)

اسی طرح ہاتھوں میں کڑا پہننا بعض غیر مسلموں کا مذہبی شعار ہے، اور غیر مسلموں کی مشابہت اختیار کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ (سنن أبی داؤد ، کتاب اللباس ، باب فی لبس الشہرة، حدیث نمبر : ٣٥١٢)مسلمان نوجوانوں کو چاہیے کہ وہ شریعت کی حدود میں رہتے ہوئے زیب و زینت اختیار کریں اور ہر رواج کو قبول کرنے کا مزاج نہ بنالیں  مسلمان کا مقام یہ نہیں ہے کہ لوگوں کے رنگ میں رنگ جائیں ؛ بلکہ ایک مسلمان کی شان یہ ہونی چاہیے کہ  دنیا اس کو اپنے لیے نمونہ بنائے ۔ فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143802200014

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں