بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

کفو کا معیار اور لڑکے کاوکیل اوراصیل بن کرنکاح کرنا


سوال

زیدایک لڑکی سے شادی کرناچاہتاتھا،مگرلڑکی کے والدین نہیں مانتے تھے،یاکہتے ہیں کہ لڑکامہاجرہے،زیدحیدرآبادمیں رہتاہے اورفیملی کسی اورشہرمیں ہے،لڑکی کے والدکوسمجھایاجاتاہے تووہ کہتے ہیں :لڑکامہاجرہے اورمہاجربہت تیز،ہوشیار،چالاک ،بے ادب ہوتے ہیں،زیدکااپناگھرنہیں ہے،کرایہ پررہتاہےفی الحال ذاتی گھرنہیں کریدسکتا،زیداورلڑکی اتنے قریب ہوچکے تھے کہ تنہائی میں مل چکے تھے،مزیدگناہ سے بچنے کے لیے انہوں نے گھروالوں سے چھپ کرنکاح کرلیا،دونوں اپنے والدین کوراضی کرنے کی کوشش کررہے ہیں،لڑکے کے والدراضی ہیں،نکاح سے پہلے اس کے والدلڑکی کوکہہ چکے تھے کہ اگروہ کورٹ میرج کرناچاہے توکرلے،تودونوں نے اس طرح نکاح کرلیاکہ لڑکی نے لڑکے کوفون پریامیسج پرکہاکہ میں آپ کواپناولی بناتی ہوں آپ اپنانکاح مجھ سے کرلیں،لڑکے نے میسج دونوں گواہوں کودکھابھی دیئے،تولڑکے نے دوگواہوں کے سامنے (جودونوں گواہ لڑکی کوجانتے تھے،البتہ ایک گواہ نے لڑکی کودیکھانہیں ،مگر جانتاہے)تولڑکے نے کہاکہ میں فلانہ بنت فلاں کواپنے نکاح میں قبول کرتاہوں،مہرمثل کے ساتھ،اب اصل سوال کی طرف آتاہوں،کچھ عرصہ قبل لڑکی کے والدنے لڑکے کے بارے میں معلومات کیں ،جومعلومات ان تک پہنچیں تواب انہوں نے کہاکہ اب تومیں شادی نہیں کرنے دوں گاکچھ بھی ہو،کیونکہ لڑکاان کے خاندانی اسٹیٹس کے برابرنہیں ہے،جومعلومات ان تک پہنچی ہیں ان میں سے اکثرغلط ہیں،سوال یہ ہے کہ کیالڑکی اورلڑکادونوں کفومیں برابرہیں یانہیں؟لڑکی سندھی ہے،جبکہ لڑکے کے آباؤواجدادافغانستان سے آئے تھے اب اردوہی بولتے ہیں،لڑکااورلڑکی دونوں ڈاکٹر ہیں اوردونوں کی اچھی سیلری ہے،لڑکی کے والدگورنمنٹ ریٹائرہیں جبکہ لڑکے کے والداب بزنس کرتے ہیں۔کیادونوں کفو ہیں یانہیں ؟اورکیانکاح ہوگیایانہیں؟

جواب

۱۔اگرلڑکااورلڑکی نسب،مال ،دینداری ،شرافت اورپیشے میں ایک دوسرے کے ہم پلہ ہیں تویہ دونوں ایک دوسرے کے کفوہیں،ان کاباہمی نکاح درست ہے۔آپ نے جوصورت حال لکھی ہےاس سے بظاہریہی معلوم ہوتاہے کہ دونوں خاندان مال اورپیشے کے لحاظ سے برابرہیں۔

۲۔اگرواقعۃً لڑکی نے زیدکونکاح کے لیے اپناوکیل بنایااورزیدنے دوگواہوں کی موجودگی میں( جب کہ وہ دونوں گواہ لڑکی کوجانتے تھے)مہرمثل پراس سے اپناعقد کرلیااس طرح کہ لڑکی کی طرف سے وکیل تھااوراپنی طرف سے اصیل توشرعاً نکاح منعقد ہوگیا۔

البحرالرائق  میں ہے:

’’امرأة وكلت رجلا أن يزوجها من نفسه فذهب الوكيل وقال اشهدوا أني قد تزوجت فلانة ولم تعرف الشهود فلانة لا يجوز النكاح ما لم يذكر اسمها واسم أبيها وجدها .... هذا كله إذا كان الشهود لا يعرفون المرأة أما إذا كانوا يعرفونها وهي غائبة فذكر اسمها لا غير جاز النكاح إذا عرف الشهود أنه أراد به المرأة التي عرفوها لأن المقصود من النسبة التعريف وقد حصل باسمها‘‘۔(3/147دارالمعرفۃ بیروت)

فتاویٰ شامی میں ہے:

( كما للوكيل ) الذي وكلته أن يزوجها من نفسه فإن له ( ذلك ) فيكون أصيلا من جانب وكيلا من آخر۔(3/99باب الکفاءۃ ط:دارالفکر)فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 143707200028

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں